اتنی بے اعتباری کیوں ہے! 52

لیول پلیئنگ فیلڈ اور فیصلہ ساز !

لیول پلیئنگ فیلڈ اور فیصلہ ساز !

پی ڈی ایم کی درینہ خواہش پوری کر دی گئی ہے ،توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کے ساتھ پانچ سال کیلئے نااہل قرار دیے کر میدان صاف کر دیا گیا ہے ،لیکن پی ڈی ایم میدان صاف ہونے کے بعد بھی خوف زدہ ہی دکھائی دیتی ہے کہ کہیں اعلی عدالیہ سے کوئی رلیف ہی نہ مل جائے ،اس لیے دیگر مقدمات پر تیزی سے کام ہو رہا ہے ، تاکہ پی ٹی آئی قیادت ایک سے باہرنکلیں گے

توکسی دوسرے میں دھر لیے جائیں گے، یہ انتقامی سیاست کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے ، لیکن انتقامی سیاست کرنے والے بھول رہے ہیں کہ دنیا گول ہے ،یہ آج جو کچھ کررہے ہیں ،کل وہی خود بھی کاٹیں گے۔اس ملک کی سیاست میں جو کچھ ہورہا ہے ،یہ کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا ہے ، اس قبل بھی وزرائے اعظم کو سزائیں دی جاتی رہی ہیں ،نااہل بھی کیا جاتا رہا ہے ، پی ٹی آئی قیادت کو بھی سزا دینے کے ساتھ نااہل کر دیا گیا ہے ،قانون کے مطابق عمران خان حق محفوظ رکھتے ہیں

کہ اس سزا کے خلاف اعلٰی عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں،ان کے پاس سب سے پہلا آپشن اسلام آباد ہائی کورٹ میںفیصلے کو چیلنج کرنا ہے، عدالت کی جانب سے حکم امتناع آنے پر ایک ممکنہ ریلیف عمران خان کے لیے ہو سکتا ہے کہ عدالت دلائل سن کر فیصلے تک ان کی سزا معطل کر دیے ،اس صورت میں عمران خان کو عدالت ضمانت پر رہا کرنے کا حکم بھی دے سکتی ہے۔
یہ بات حکمران اتحاد قیادت بھی جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی قیادت کو زیادہ دیر تک پا بندے سلاسل رکھ نہیں پائیں گے

، اس لیے ہی دوسو مقدمات بنائے گئے ہیں ،تاکہ ایک کے بعد ایک میں پا بند سلا سل رکھا جاسکے ،ایک طرف حکمران قیادت کاانتقامی رویہ ہے تو دوسری جانب نظام عدل کی ساکھ دائو پر لگی ہے،عدالتوں میں دونوں جانب کے وکلا کا طرز عمل، عدالتوں کا اپنا رویہ اور قانون کے نام پر مخصوص انداز میں کسی خاص شخصیت کو سیاست سے دور کرنا ،عوام میں بیزاری کا سبب بنتا جا رہا ہے،عدالتوں نے عام آدمی کے مسائل کو پس پشت ڈال کر سیاسی مقدمات میں زیادہ دلچسپی کااظہار کررہی ہیں

،پی ٹی آئی قیادت پر دو سو مقدمات کی سماعت کے دوران عام لوگوں کے مقدمات متاثر ہو رہے ہیں،نظام عدل کو وقت بے وقت جاگنے یا سونے کی بجائے تسلسل کے ساتھ اپنی ذمے داری سب کے لئے یکساں ادا کرنے پر زور دینے کی اشدضرورت ہے۔تو شہ خانہ کیس میں نظام عدلیہ کی تیزیاں سب نے ہی دیکھی ہیں اور یک طرفہ کر دار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہا ہے ، اس پر ہی پی ٹی آئی قیادت کوبھی شکایت رہی ہے،

اس شکایت کا ازلہ کیا جاسکتا تھا ،لیکن نہیں کیا گیا ،اس شکایت کی وجہ سے ہی ان کے وکلاء فیصلہ سننے کے لئے عدالت میں بھی نہیں آئے ،اس مقد مے میں بظاہرقانونی تقاضے پورے دکھائی دیتے ہیں، لیکن ماضی کے واقعات کی موجودگی میں یہ مقدمہ بھی سیاسی بحث کا حصہ بن چکا ہے،قانونی ماہرین کے مطابق اگر ہائی کورٹ ان کی سزا برقرار رکھتی ہے تو ان کے پاس آخری آپشن سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا ہو گا،اب دیکھنا ہے کہ وہاں سے کیا فیصلہ آتا ہے ، پی ٹی آئی قیادت کو رلیف ملتا ہے کہ نہیں ؟

حکمران اتحاد کو اب بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ انہیں اعلی عدالتوں سے رلیف مل جائے گا ،اس لیے ہی مشترکہ مفادات کو نسل نے نئی مردم شماری کی منظوری دیے دی ہے ،اب نئی مردم شماری پر حلقہ بندیاں ہو ں گی اور انتخابات اگلے سال مارچ،اپرل تک چلے جائیں گے ۔حکمران اتحاد پہلے ہی انتخابات میں جانے سے گریزاں ہے ، اس لیے ہی سیاسی میدان صاف کر نے پر زور دیا جارہا تھا ،اب میدان صاف کر دیا گیا ہے تو بھی بے یقینی کی کیفیت طاری ہے ،حکمران اتحاد کو یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کو مائنس کر دیا گیا ہے

،پی ٹی آئی قیادت بظاہر مائنس ہوئے ہیں ،لیکن وہ جب بھی دوبارہ آئیں گے ،پلس ہو جائیں گے ،اس خطر ے کے پیش نظر ہی حکمران اتحادآئندہ اقتدار دارمیں آنے کی یقین دہانی چاہتے ہیں ، لیکن طاقتور حلقوں کی جانب سے ابھی تک مکمل یقین دہانی نہیں کرائی جارہی ہے ، ملک کے سیاسی حلقوں میں بحث جاری ہے کہ کہیں فیصلہ تو نہیں کر لیا گیا ہے کہ کوئی ٹیکنو کریٹ نگران وزیر اعظم بنا کر نگران حکومت کی مدت غیر معینہ مدت کیلئے بڑھا دی جائے ،ایسی باتیں کر نے والے نگران حکومت کو دیے جانے والے اختیارات کے حوالے سے پاس ہونے والے بل کو بھی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں

،اتحادی حکومت جاتے جاتے خود کو بچانے اور دوبارہ اقتدار میںلانے کیلئے جو پا پڑ بیل رہی ہے ،یہ سب کچھ ان پر اُلٹا ہی پڑنے والاہے ،اتحادیوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر فیصلہ سازوں نے ایک ایسے بھنور میں پھنسادیا گیا ہے کہ جس سے نکلنا انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے، اتحادیوں کے پاس اس بھنور سے نکلنے کا واحد راستہ بروقت منصفانہ انتخابات ہیں ، لیکن اتحادیوں نے خود کو ایک ایسے دوراہے پر لا آکھڑا کیا ہے کہ ان کے دو نوں جانب ہی گہری کھائی ہے ، وہ جد ھر بھی قدم برھائیں گے، بے موت ہی مارے جائیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں