43

انتخابات کب ہوں گے!

انتخابات کب ہوں گے!

ملک کی سیاسی و معاشی حالت کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ،ایک طرف سیاسی عد م استحکا بڑھتا چلاجارہا ہے تو دوسری جانب معاشی بد حالی کا دور دوراںہے ، اہل سیاست تدبر کا مظاہرہ کررہے ہیں نہ ہی دیگر سٹیک ہو لڈر اپنا کردار ادا کر پا رہے ہیں ،اس صورت حال میں ضرور ی ہو گیا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو جلد از جلد عام انتخابات منعقد کرائے جائیں ،تاکہ سارے معاملات تازہ مینڈیٹ کی حامل حکومت کے سپرد کیے جاسکیں ،نئی منتخب حکومت سے کم از کم اُمید تو کی جاسکتی ہے

کہ وہ سیاسی و معاشی بدحالی سے نمٹنے کیلئے دیر پا فیصلے کر سکے گی ۔ملک میں عام انتخابات وقت کی اہم ضرورت ہیں ،مگر عام انتخابات کے بر وقت انعقاد کی جانب کوئی آہی نہیں رہا ہے ، پی ڈی ایم بروقت انتخابات کی یقین دہانیاں کراتے چلی گئی اور اب نگراں حکومت بروقت انتخابات کرنے کی یقین دہانیوں میں لگی ہوئی ہے ، لیکن بر وقت انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے دونوں کا ہی موقف واضح نہیں ہے، یہ دونوں ہی عام انتخابات کے انعقاد کیلئے کہیں اور ہی دیکھ رہے ہیں ، جبکہ نگران حکو مت سے لے کر الیکشن کمیشن تک کا ابہا می رویہ بتا رہا ہے کہ انتخابات کا بر وقت انعقاد تو دور کی بات ، عام انتخابات مستقبل قر یب میں بھی ہوتے دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ۔
یہ سب ہی جانتے ہیں

کہ قومی اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل ہو چکی ، الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کو اچھا لگے یا برا لگے ، قومی اسمبلی کے انتخابات نوے دنوں میں ہی کرانا آئینی مینڈیٹ ہے،لیکن یہاں اپنے مفاد میں اپنی ہی آئینی تو جہات نکالی جارہی ہیں ، انتخابات میں التوا کے بہانے تراشے جارہے ہیں ، اس سے محاذ آرائی اور عدم استحکام میں اضافے کے خدشات بڑھنے لگے ہیں ،اس صورتحال میں مقتدر حلقے کیا سوچ ر ہے ہیں،

اس کے بارے ابھی کچھ کہا نہیںجا سکتا، کیونکہ بظاہر کچھ بھی سامنے نہیں آ رہا، اندر کھاتے ہی کھچڑی پک رہی ہے اورحالات کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے ،اس دوران عوام کا پارہ بھی ہائی ہو رہا ہے ، عوام کے بڑھتے پارے کے بعد ہی اندازہ ہو گا کہ اس بے رحم کھیل میں کس کی فتح ہوتی ہے اور کون انتظار کی سولی پر وقت گزارے گا۔
اس وقت تیزی سے بدلتے حالات میں سب ہی نئے آقا ئوںکی طرف ہی دیکھ رہے ہیں، وہ بھی جو بظاہر حقیقی آزادی کے نعرے لگاتے گلا خشک ہونے نہیںدیتے تھے اور وہ بھی جوووٹ کو عزت دوکا علم اُٹھائے باہر چلے گئے اور وہ بھی جوشہادتوں کا بوجھ اٹھائے غریبوں کے غم میں موٹے تگڑے عرصہ دراز سے ایوانوں میں د ندناتے پھرتے رہے ہیں،اس مفاد پرست سیاست میں کسی سے کچھ بعید نہیں کیا جاسکتا ، عین ممکن ہے کہ چور ڈاکو کی گردان الاپنے والے اور اٹھتے بیٹھتے ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے والے ہی ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے گیت گائیں کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں

،یہاں اصولوں کی سیاست یا حکمرانی کا کہیں کوئی چلن نہیں رہا ہے،یہاں سب کی مفاداتی لڑائیاں ہیںاور اس کاتوازن طاقتوروں کے ہاتھوں میں ہے،وہ جس کا جب چاہتے ہیں،پلڑا بھاری کر دیتے ہیںاور جیسے چاہتے ہیں ،مائنس کر دیتے ہیں۔
اہل سیاست کے اپنے پلڑے بھاری کرنے کے چکر میں بے چارے عوام پس کررہ گئے ہیں ،عوام کا کوئی پر سان حال نہیں ہے ،عوام کی داد رسی کی جارہی ہے نہ ہی عوام کو حق رائے دہی کا موقع دیا جارہا ہے ، چار سو انتخابات کے غیرمعینہ مدت تک کے لئے ملتوی ہونے کی چہ مگوئیاں بڑھتی جارہی ہیں،ایک بار پھر اعلی عدلیہ سے رجوع کر لیا گیا ہے ، عدلیہ پہلے بھی نوے دن میں انتخابات کرانے کا کہہ چکی ، ایک بار پھر ھکم صادر کر دیے گی ، لیکن اس پر عمل در آمد حکومت اور الیکشن کمیشن نے ہی کر نا ہے ،جبکہ یہ دونوں ہی بال ایک دوسرے کے کورٹ میں ڈالے جارہے ہیں ، اْس سے صورتحال پہلے سے زیادہ غیریقینی کا شکار ہو رہی ہیںہے اوریہ سوال ہر زبان پر زد عام ہے کہ آخر عام انتخابات کب ہوں گے؟
ملک میں عام انتخابات کب ہوں گے؟اس سوال کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے ، لیکن یہ الیکشن کمیشن کی اہم اور اولین ذمہ داری ہے کہ قوم کو بتائے کہ نئے عام انتخابات کب ہوں گے؟ الیکشن کمیشن مسلسل چپ سادھے بیٹھاکسی اشارے کا منظر دکھائی دیتا ہے ،یہ آئین کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ ایسے ہی کب تک جاری رہے گا اور کیا اس کے ذمہ داران کو کوئی سزا بھی مل پائے گی ؟اس ملک میں جب تک سزا و جزاء کا عمل بلا امتیاز نہیں ہو گا ،آئین شکنی رُکے گی نہ ہی عوام کو بروقت حق رائے دہی کا موقع مل پائے گا ، بے چارے عوام در بدر پو چھتے ہی نظر آئیں گے کہ اس ملک میں عام انتخابات کب ہوں گے ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں