یہاں پر دِکھتا ہوتا نہیں ! 42

عوام کی سننے والا کوئی نہیں !

عوام کی سننے والا کوئی نہیں !

نگراں حکومت تین ماہ میں انتخاب کرانے اور اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے ہی آئی تھی، لیکن اس نے اپنے اوپر ایسی ذمے داریوں کا بوجھ لاد لیا ہے کہ جس کا بوجھ منتخب حکومتیں بھی برداشت نہیں کرسکتی ہیں، ایک طرف نگران حکومت معیشت کے جن کو قابو کرنے کے چکر میں ہے تو دوسری جانب کر پٹ مافیاز کے خلاف کریک ڈائون کیا جارہا ہے،لیکن اس ملک کو تباہی کے کنارے پر لے جانے والوں سے کو ئی پو چھ رہا ہے نہ ہی ان کے بنائے ناکام منصوبوں اور فیصلوں کا کوئی جائزہ لے رہا ہے ،

اس پر سب کے ہی لب سلے ہیں، سب ہی خاموش دکھائی دیتے ہیں،کیو نکہ اس پر بات کر تے ہوئے ان کے اپنے ہی پَر جلنے لگتے ہیں ۔اگر دیکھا جائے تواس ملک کو تباہی کے دھانے پر لانے میں سب نے ہی اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے، اس ملک و عوام کے سب ہی مجرم ہیں ، لیکن کوئی ماننے کو تیار ہے نہ ہی شرم سار ہے ، یہاں سب ہی بڑی بے شر می سے دوبارہ اقتدار میںآنے کی بات کرتے ہیں ،ملک و عوام کو بحرانون سے نکلنے کی باتیں کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ اپنا پرانا ہی بیانیہ بار بار دہرائے جارہے ہیں ،

یہ بیانیہ عوام کو از بر ہو چکا ہے ،اور عوام جان بھی چکے ہیں کہ یہ مسیحا کے روپ میں ایسے دججال ہیں ، جو کہ عوام کی چلتی سانسیں بھی بند کر دینا چاہتے ہیں ، عوام اب ان کے بہلائوئے یا بہکائوئے میں آنے والے ہیں نہ ہی آزمائے کو دوبارہ آزمانا چاہتے ہیں ،عوام ان سے صرف چھٹکارہ چاہتے ہیں ، لیکن ان سے چھٹکارہ دلانے والے ہی انہیں زبر دستی مسلط کرنے پر بضد ہیں۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ ایک ناکام پرانا سکرپٹ ہی دہرایا جارہا ہے ، پہلے ایک جماعت کو اقتدار میں لایا گیا ،

پھر اسے اقتدار سے نکال کر اقتدار ایک غیر فطری اتحاد کے سپرد کر دیا گیا،اس اتحادی حکومت نے سولہ ماہ میں ہی ملکی معیشت کا جو بھر کس نکلا ہے ، اس کی دھوم چار سو سنائی دیے رہی ہے ، لیکن تجربات کر نے والے ہار ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ،انہوں نے اب ایک طویل مدت نگران حکومت کا تجربہ کرنا شروع کر دیا ہے،اگر اس سے کوئی سمجھ رہا ہے کہ ملکی حالات میں کوئی بہتری لائی جاسکتی ہے تو اسے اپنی غلط فہمی دور کر لینی چاہئے اور جو احباب جلد انتخابات کی توقع لگائے بیٹھے ہیں ، انہیں بھی خوش فہمی سے باہر نکل آنا چاہئے ، انتخابات جلد ہونے والے ہیں نہ ہی نگران حکومت جانے والی ہے ،ملک و عوام جائے بھاڑ میں ، یہاں وہی کچھ ہو گا جوکہ طاقتور حلقے چاہتے ہیں ۔
اس بات کا اہل سیاست کو بخوبی اندازہ ہے، اس لیے اُن کی ہی جانب نہ صرف دیکھا جارہا ہے ،بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنی وفاداری کا یقین بھی دلایا جارہا ہے ،اس وفاداری کے کھیل میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے مسلم لیگ( ن)کی جیت ہورہی ہے ، اس لیے میاں نواز شریف کی واپسی کی جہاں تاریخ دیے دی گئی ہے ، وہیںپیپلز پارٹی قیادت بھی لا ہور میں ڈیرے ڈالنے لگے ہیں ، ایک بار پھر وہی جوڑ توڑ کی سیاست کے ساتھ مقتدر حلقوں کی سر گرمیاں دکھائی دینے لگی ہیں ، ڈیل اورڈھیل دی جانے لگی ہے،

ایک طرف اہل سیاست کو انتخابی سر گرمیوں کی اجازت دی جارہی ہے تودوسری جانب پس پردہ دبے قدموں کی چاپ بھی برابر سنائی دیے رہی ہے ، اس صورت حال میں جمہوریت یا آمریت کا اُونٹ کس کروٹ بیٹھے گا،اس بارے قبل از وقت کچھ کہنا مشکل ہے۔دنیا بدل رہی ہے اور ہم جمہوریت ،آمریت میں ہی الجھے ہوئے ہیں، ہم کب بدلیں گے ، بدلیں گے بھی یا نہیں یا پھر ایسا ہی سب کچھ چلتا رہے گا ، اس بارے وسوق سے کچھ کہا آسان نہیںہے ،تاہم ایک بات توطے ہے کہ طاقتور حلقے اپنی سوچ بدلیں نہ بدلیں، عوام کی سوچ بدل رہی ہے ،عوام نگران حکومت سے کوئی غرض رکھے ہوئے ہیں نہ ہی جمہوریت یا آمریت سے کوئی اُمید لگائے بیٹھے ہیں ،

عوام روز بروز اپنی عذاب ہوتی زندگی سے تنگ آچکے ہیں ، عوام سڑکوں پر سراپہ احتجاج ہیں اور آسمان کی جانب ہاتھ اُٹھا ئے آہو بکا کررہے ہیں ، لیکن عوام کی کوئی سننے والاہے نہ ہی کوئی داد رسی کررہا ہے ، اگر اہل اقتدار ایسے ہی عوام کی اَن سنی کرتے رہے تو پھر عوام بھی ان کی ایک نہیں سنیں گے، یہ وقت انتہائی قریب آتا جارہا ہے کہ جب عوام کی نفرت اور غم و غصہ اہل اقتدار کے محلات سے ٹکرا کے انھیں زمیں بوس کردے گااور انہیں بچانے کوئی آگے نہیں آئے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں