سیاسی انتشار میں مفاہمت کے امکانات ! 52

کب راج کرے گی خلق خدا

کب راج کرے گی خلق خدا

پاکستان ہر وقت نازک دور سے ہی گذرتا رہا ہے اور ہمیں ہر وقت مشکلات کا ہی سامنا رہا ہے،اس وقت بھی حالات ساز گار ہیں نہ ہی کوئی حالات ساز گار بنانے میں سنجیدہ ہے ،ہر کوئی اپنا کاروبار ، اپنی سیاست اور اپنا اقتدار بچانے میں ہی لگا ہے،عوام مہنگائی بے روز گاری کی چکی میں پس رہے ہیں اور حکمران عوام پر سے بو جھ کم کر نے کے بجائے مزید بڑھائے چلے جارہے ہیں ، ایک طرف پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں تو دوسری جانب بجلی،گیس کے بلوں میں بتدریج اضافہ کیا جارہا ہے

،اس کیخلاف ملک گیر احتجاج بھی ہو رہے ہیں، لیکن کوئی عوام کی آواز سن رہا ہے نہ ہی عوامی مسائل کا سد باب کیا جارہا ہے ، حکمرانوں کے پاس عوامی مسائل کا کوئی پلان ہے نہ ہی ان میں صلاحیت ہے کہ عوام کو درپیش مشکلات سے نجات دلاسکیں ، یہ عوام مخالف فیصلے کر نے اور ایک دوسرے کو مود الزام ٹہرانے کے علاوہ کچھ بھی نہیںکر سکتے ہیں۔یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ ملک کی سلامتی اور ترقی کے لیے کروڑوں لوگ سو چتے رہتے ہیں، لیکن اس ملک کے اقتدار وسائل پر ایک مخصوص ٹولہ ہی قابض رہا ہے

،جو کہ ملک و عوام کے بجائے اپنا ہی سوچتا ہے اور اپنے ہی مفادات کا تحفظ کررہا ہے ،عوام ان آزمائے مفاد پر ستوں کو بڑی مشکل سے مسترد کرتے ہیں ،لیکن انہیں دوبارہ عوام پر زبر دستی مسلط کر دیا جاتا ہے ،یہ اقتدار کی بندر بانٹ کا کھیل ایک عرصے سے کھیلا جارہا ہے اور عوام بے بسی سے سب کچھ ہو تا دیکھنے پر نہ صرف مجبور ہیں، بلکہ بزور طاقت منوایا بھی جارہا ہے ، اگر یہ سب نہ ہو رہا ہوتا تو آج پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہو چکا ہوتا، لیکن کچھ اندرونی اور بیرونی طاقتوں کو سیاسی و معاشی استحکام قبل قبول ہی نہیں ہے

۔یہ کتنی عجب بات ہے کہ یہاں ہر دور اقتدار میں آنے والے حکمران بڑے بڑے دعوئے بہت کرتے ہیں ،مگران دعوئوں کے پورا نہ ہو نے پر کبھی عوام کے سامنے شر مندہ نہیں ہوتے ہیں،اُلٹا عوام کو اغیار کی غلامی میں دیے کر جشن مناتے ہیں، اس ملک کے حکمرانوں نے ایک معاشی طور پر مستحکم ملک کو چند ہی سالوں نہ صرف دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچادیا ،بلکہ عوام کو بھی بھکاری بنا دیا ہے ، نااہل حکمرانوں کے ہاتھوں ستائے عوام دست گریبان ہیں اور اہل سیاست مقتدر حلقوں کے ساتھ مل کر اقتدار کی بندر بانٹ کا کھیل کھلنے میں لگے ہوئے ہیں

،یہ ایک کو گرا کر دوسرے کو اٹھانے کا کھیل جانے کب تک ایسے ہی چلتا رہے گااور عوام کب تک ایسے ہی بے وقوف بنتے رہیں گے ، عوام کو کل بھی بہکایا اور بہلایا جارا تھا ، عوام کو آج بھی بہلا جارہا ہے ، عوام جب تک ان کے بہکائوئے کے بیانیہ سے باہر نہیں نکلیں گے،عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
عوام ملک میں تبدیلی کے ساتھ اپنی زندگی میں بھی تبدیلی چاہتے ہیں ،لیکن اس تبدیلی کیلئے ایک مخلص قیادت کے ساتھ احتساب کر نے کی بھی ضرورت ہے ، اس ملک میںدیانتدار قیادت کہاں سے آئے گی اور احتساب کون کرے گا ؟ عوام اپنے حق رائے دہی سے اپنے میں سے ہی نہ صرف مخلص قیادت لاسکتے ہیں ،بلکہ ملک کے سارے لٹیروں کا محاسبہ بھی کر سکتے ہیں،عو ام کو اپنی حق رائے دہی کی طاقت کا درست استعمال کر نا ہو گا ، عوام کو درپش بحرانوں سے نکالنے کوئی نہیں آئے گا ،

عوام کو ہر آزمائش سے خود ہی باہر نکلنا ہو گااور مفاد پرست حکمران اشرافیہ کی غلامی سے آزادی کا راستہ خود ہی تلاش کر نا ہو گا ، یہ راستہ عام انتخابات کے انعقاد سے ہی نکلے گا ، لیکن نگران حکومت انتخابات کر نے کے علاوہ سارے کام کررہی ہے ، عوام پر ہی عوام مخالف فیصلوں کے تیر چلائے جارہی ہے ۔
یہ عوام مخالف تیر چلا کر عوام کے صبر کو آزما رہے ہیں، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا چارہا ہے ،یہ چند دن کے نگران حکمرانوں کو لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، انہیں عوام کو ریلیف دینا چاہیے، ڈالر کی قیمت کم ہونے سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ، آٹا ،ر روٹی و دیگراشیاء ضروریہ کی قیمت کم ہونی چاہیے، بجلی ،گیس ،پٹرول کی قیمت کم ہونی چاہیے ، عوام کی مشکل زندگی میں آسانی لانی چاہئے اگر اب بھی ایسا نہ کیا گیا تو پھر وہ وقت قریب آجائے گاکہ جب تخت و تاج اچھالے جائیں گے اور راج کرے گی خلق خدا ، اس کے بعد بند کمروں کے فیصلے چلیں گے نہ ہی حالات کسی کے قابو میں رہیں گے، پھر خلق خدا ہی فیصلے کرے گی اور خلق خدا ہی راج کرے گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں