چہرے نہیں نظام بدلنا ہو گا !
پا کستان کے سارے مسائل کا فوری حل عام انتخابات میں ہی چھپا ہے، لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ موجودہ نگران حکومتیں ملکی معیشت کھڑی کرسکتی ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں،نگران حکومتیں جتنی مرضی بھاگ دوڑ کر تی نظر آئیں ،دنیا ئے عالم ان پر اعتماد نہیں کریں گے ،ملک میںجب تک پانچ سال کے لئے منتخب حکومت مرکز اور صوبوں میں نہیں آئیں گی ،تب تک معیشت درست ٹریک پر نہیں چل پائے گی
،ملک میںعام انتخابات کا فوری انعقادالیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ عام انتخابات میں تاخیر کرکے ملک کو صحیح ٹریک پر لایا جاسکتا ہے تو ایسا ممکن نہیں ہے ،اس وقت جلد از جلد عام انتخابات کا انعقاد ہی ملک کو مسائل کی دلدل سے باہر نکال سکتا ہے۔یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ ملک کے سارے مسائل کا حل عام انتخابات کے انعقاد میں ہی پوشیدہ ہے ، اس کے باوجود جمہوریت کی علمبر دار جماعتیں ہی جمہوری عمل سے راہ فرار اختیار کرتی دکھائی دیتی ہیں ، عوام کی عدالت میں جانے سے گریزاں نظر آتی ہیں
،ایک طرف مسلم لیگ( ن) جیسی بڑی جماعت الیکشن کے التوا کی حامی محسوس ہوتی ہیں تو دوسری جانب مولانا فضل الرحمن بھی ملکی حالات بہتر ہونے تک انتخابات موخر کرنے کی باتیں کررہے ہیں،جبکہ بلاول بھٹو انتخابات میں التوا چاہنے والوں کو بلواسطہ جمہوریت پسندانہ رویہ یاد دلانے میں لگے ہیں
،لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے بھی پی ڈی ایم کے اتحادی ہونے کی حیثیت سے مردم شماری کے نتائج کی منظوری دی تھی، حالانکہ پیپلز پارٹی قیادت بخو بی جانتے تھے کہ اس اقدام سے انتخابات التوا کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے مل کر اپنے سولہ ماہ کے دور اقتدار میں اپنے حصول مفادمیں ہر کام کیا ،جوکہ وہ کر سکتے تھے ،لیکن اگر نہیں کیا تو عوام کیلئے کچھ نہیں کیا ہے ،اس لیے عوام کی عدالت میں جانے سے سب ہی بھاگ رہے ہیں ، پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ( ن ٰ) اور پی ڈی ایم جہاں اپنا سیاسی اثاثہ گنوا بیٹھی ہیں، وہاںنوںمئی کے واقعات نے عمران خان سے بھی جیتا میچ چھین لیا ہے،
اگر دیکھا جائے تو پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے مل کر اپنے سولہ ماہ کے دور اقتدار میں اپنے حصول مفادمیں ہر کام کیا ،جوکہ وہ کر سکتے تھے ،لیکن اگر نہیں کیا تو عوام کیلئے کچھ نہیں کیا ہے ،اس لیے عوام کی عدالت میں جانے سے سب ہی بھاگ رہے ہیں ، پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ( ن ٰ) اور پی ڈی ایم جہاں اپنا سیاسی اثاثہ گنوا بیٹھی ہیں، وہاںنوںمئی کے واقعات نے عمران خان سے بھی جیتا میچ چھین لیا ہے،
اگر نگران حکومت کو دیکھا جائے تواس میں فوج کے سپہ سالار کا ہی کردار سب سے اہم ہے اور کچھ کر گزرنے کی امنگ بھی نظر آتی ہے، انہوں نے اپناڈنڈا چلایا تو مثبت اشارے بھی اجاگر ہو نے لگے ہیں،اگر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر پاکستان کی دگرگوں معیشت کو سہارا دینے کے لئے کمر بستہ ہو گئے ہیں تو پھرانتخابات کا دور تک کوئی امکان نہیں ہے ۔یہ تاثر عام ہے کہ کسی خاص ادارے اورایک سیاسی جماعت کی خواہش پر انتخابات موخر کئے جا رہے ہیں، جبکہ اس تاثر کو ذائل کر نے کیلئے میاں نواز شریف کی واپسی کی تاریخ کا اعلان کافی ہے نہ ہی بلاول بھٹو کے فوری انتخابات کے مطالبہ سے ہی عوام یقین کریں گے ، عوام جان چکے ہیں کہ یہاں سب کچھ مخصوص اشاروں پر ہی ہو رہا ہے
، ایک اشارے پر الیکشن کر نے کی بات کرتا ہے تو دوسرا الیکشن سے قبل ریاست بچانے کی باتیں کرنے لگتا ہے ، یہ جتنا عوام بے شعور سمجھتے ہیں ،عوام اتنے بے شعور نہیں رہے ہیں،اس لیے بہتر ہو گا کہ الیکشن کمیشن بشمول تمام سیاسی جماعتیں مل کر ہی آئینی مدت میں انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائیں، تاکہ آئینی تقاضا پورا ہونے کے ساتھ عوام میں تاثر بھی زائل ہو سکے کہ کسی خاص ادارے یا سیاسی جماعت کی خواہش پر انتخابات موخر کئے جا رہے ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ عوام حق رائے چاہتے ہیں ،
اس وقت صورتحال دن بدن انتہائی گھمبیر ہوتی جارہی ہے ،یہ صورتحال بہلانے اوربہکانے سے بہتر ہو گی نہ ہی نئے وعدوں اور نئے دعوئوں کے سہارے وقت گزاری ہو پائے گی ، ڈنگ ٹپائو پروگرام فلاپ ہو چکا ،اب فرسودہ نظام ہی بد لنا پڑے گا ، اس نظام کو بدلنے کی جتنی آج ضرورت ہے، شاید اس سے پہلے کبھی اتنی نہیں تھی، کیونکہ اب ظلم کی انتہا ہو چکی ہے، ہمیں اب اپنی سوچ کا محور بدلنا ہو گا ،اب ہمیں ان چہروں کو چھوڑ کر نظام بدلنے پر فوکس کرنا ہو گا ،اگر ہم نے اب بھی نظام نہ بدلاتو پھر یہ نظام ہی سب کچھ مٹا دے گا۔
https://youtu.be/QVX8Lo1k8uc