بے لگام اسرائیلی کو لگام ڈالی جائے ! 44

طوفان الا قصیٰ دنیاکیلئے خطرے کی گھنٹی !

طوفان الا قصیٰ دنیاکیلئے خطرے کی گھنٹی !

اسر ائیل پرحماس کے حملوں سے بہت سے لوگوں نے تصور کرلیا تھا کہ اب مسجد الاقصیٰ آزاد ہوجائے گی، اسرائیل علاقے خالی کردے گا، لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہورہا اور ایسا اتنی آسانی سے ہونے والا بھی نہیں ہے، لیکن حماس نے اسرائیل کا جو دبدبہ توڑا ہے ، اس نے ثابت کردیا ہے کہ اگر دنیا ئے اسلام حماس کی جرأت کاپجاس فی صد بھی ظاہر کرے تو وہ سب کچھ ہوسکتا ہے، جو کہ ہر مسلمان کے دل ہے ،

مسجد الاقصیٰ نہ صرف آزادہو گی،بلکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام بھی عمل میں آ جائے گا، اس کیلئے عالم اسلام کو حماس کا ساتھ دینا ہو گا ،لیکن اُمت مسلمہ کی خوا ہش کے باو جود مسلم حکمران حماس کا ساتھ نہیں دیے رہے ہیں۔عالم اسلام حماس کا ساتھ دے نہ دیے، طوفان الا قصی کی گونج ساری دنیا میں ہی سنائی دیے رہی ہے ،امر یکہ اور اس کے اتحادی کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں ، جبکہ پہلی بار مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے اسرائیل کو نہتے فلسطینیوں پر مظالم بند کر نے کا مطالبہ کر دیا ہے

،سعودی عرب نے بھی بظاہر اسر ائیل سے نہ صرف ہر قسم کے مذاکرات بند کر دیے ہیں،بلکہ ا مر یکہ کو دو ٹوک پیغام بھی پہنچایا ہے کہ اگر لڑائی جاری رہی تو اس کیلئے زیادہ دیر تک غیر جانبدار رہنا ممکن نہیں رہے گا ،اس طرح پا کستان پر بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دبائو از خود ختم ہو گیا ہے ، لیکن عالم اسلام کو جس طرح متحد ہو کر اسرائیل کے جاریحانہ عزائم کا مقابلہ کر نا چاہئے ، وہ نہیں کیا جارہا ہے ،

اس حوالے سے رجب طیب ار دو ان نے مدتوں پہلے کہا تھا کہ اگر ہم بیت المقدس سے محروم ہوئے تو مدینہ کی حفاظت نہیں کر سکیں گے ، اگر مدینہ ہاتھ سے نکل گیا تو مکہ بھی بچانہیں پائیں گے اور اگرہم نے مکہ بھی کھو دیا تو پھر کعبہ سے بھی محروم ہو جائیں گے۔اس وقت صورتحال کچھ ایسی ہی بنتی جارہی ہے ، اسرائیل کے گریٹر اسرائیل بنانے کے عزائم کسی سے پو شیدہ نہیں ہیں ، وہ بڑ ی ہو شیاری سے اسلامی ممالک کو اپنا اسیر بنارہا ہے اور اسلامی ممالک اپنے مفادات کے پیش نظر مسئلہ فلسطین تو کیا ،

توہین اسلام بھی نظر انداز کرتے جارہے ہیں ،یہ حماس کی کارروائی عرب ہمسائیوں اور بڑی طاقتوں کے لیے ایک سبق ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی دوڑ میں مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرکے ایک بڑی غلطی کررہے ہیں،ہنری کسنجر نے کئی دہائی قبل خبر دار کیا تھا کہ اگر فلسطین جیسے ایشو کو نظر انداز کیا گیا تو یہ کسی بھی وقت وار کرکے آپ کا چہرہ بگاڑ دیگا، حماس نے ایسا ہی کر کے دیکھا ہے ،

ایک طرف اسرائیل کے لیے پریشانی پیدا کی ہے،تو دوسری جانب اسلامی ممالک کے حکمرانوںکو بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے ، یہ اب اسلامی ممالک نے فیصلہ کر نا ہے کہ انہوں نے اپنے مفادات کا تحفظ کر نا ہے کہ اُمت مسلمہ کے ساتھ کھڑے ہو نا ہے۔اُمت مسلمہ کے ساتھ غیر مسلم بھی اسر ائیلی جارحیت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں ، جبکہ حماس نے مزاحمت کے چھٹے روز بھی ہمت نہیں ہاری ہے، انہوں نے اسرائیل کا بھر پور مقابلہ کر نے کے ساتھ اسلامی حکمرانوں کے ضمیر کو بھی کچوکا لگایا ہے کہ اگر ان میں ذرا بھی رمق باقی ہے تو زبانی کلامی جمع خرچ کرنے کے بجائے عملی اقدامات کیلئے دبا بڑ ھایا جائے

،لیکن ان کے بیانات اور اقدام بتارہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے خلاف سخت اقدام اُٹھانے کے بجائے اس بات کے لیے بے چین ہیں کہ جنگ بند ی ہوجائے اور انہیں کسی بڑے امتحان سے نہ گزرنا پڑے، یہ سب اسرائیل سے خوف زدہ ہیں ،حالانکہ اسلامی ممالک کی طاقت اسرائیل سے کئی گنا زیادہ ہے، اگر معمولی حماس اور حزب اللہ فورس اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں تو اسلامی ریاستیں تو ان سے کہیں زیادہ وسائل رکھتی ہیں،

اگریہ اپنی افواج کو اسرائیل کی سرحد پر لاکھڑا کریں تو اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑجائیں گے،لیکن ظاہر ہے کہ صرف مسجد اقصیٰ ہی یہود کے پنجے میں نہیں، سارے مسلمان ریاستیں ہی یہود کے شکنجے میں ہیں،لیکن حماس کی چنگاری ساری دنیا میں ہی آگ لگا نے والی ہے۔
دنیا ئے عالم پہلے ہی روس یوکرین جنگ سے پیدا شدہ صورتحال کے نتیجے میں تباہیوں اور معاشی مشکلات سے دوچار ہے، حماس اسرائیل جنگ نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنادیا ہے، اگر یہ تنازع شدت اختیار کرتا چلا گیا تو یہ عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے، اس وقت دنیا میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر دو ایسے درینہ مسائل ہیں کہ جن سے پوری دنیا میں عدم استحکام ہے اور ان کے حل کے بغیر دنیا میں قیام امن ناممکن ہے،یہ طوفان الا قصی دنیا کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے ،

اس سے پہلے کہ اس طوفان میں سب کچھ ہی بر باد ہو جائے، اقوم متحدہ اوراو آئی سی کو چاہئے کہ وہ اپنے اجلاسوں میں محض زبانی کلامی جمع خرچ کر نے کے بجائے حماس اسرائیل کی نہ صرف جنگ بندی کرائے،بلکہ مسئلہ فلسطین کا قابل قبول حل بھی نکلا جائے ،کیو نکہ تنازع فلسطین کا منصفانہ حل ہی دنیا ئے امن کا ضامن ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں