کب تک کوئی برداشت کرے ! 37

عوام محاسبہ چاہتے ہیں !

عوام محاسبہ چاہتے ہیں !

ملک میں انتخابات کے انعقاد کے بارے جیسے بے یقینی پائی جاتی ہے ،ویسے ہی میاں نواز شریف کے حوالے سے ابہام پایا جاتا ہے کہ اکیس اکتوبر کو آئیں گے اور اگر آئیں گے تو مینار پا کستان جائیں گے کہ جیل جائیں گے ،اس حوالے سے نگران وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ وقت پر انتخابات کی تیاریاں مکمل ہیں ، جنوری میں جہاں الیکشن کے انعقاد سے متعلق مطمئن ہیں،وہیں مسلم لیگ (ن) یا کسی دوسری پارٹی کیلئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے ہیں،

ملک میںکسی بھی سیاسی شخصیت کے بارے میں جو بھی کوئی فیصلہ ہوگا، وہ عدالتی عمل کے نتیجہ میں ہی کیا جائے گا۔نگران حکومت کا کام منصفانہ انتخابات کرنا اور عدالتی احکامات پر عملدر آمد کراناہے ، لیکن اس ابہام اور بے یقینی کی مین وجہ یہ ہے کہ نگران حکومت انتخابات کر نے میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے نہ ہی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ یکساں سلوک روارکھا جارہا ہے ،نگران حکو مت مسلم لیگ (ن)حکومت کا ہی تسلسل دکھائی دیتی ہے ، ایک طرف نگران وزیر اعظم سے لے کر لندن ہائی کمیشن تک میاں نواز شریف سے ملاقاتیں کررہے ہیں تو دوسری جانب ساری سیاسی پا بندیاں تحریک انصاف پر لگائی جارہی ہیں ،اس غیر منصفانہ رویئے کے ساتھ کیسے کہاجاتا ہے کہ کسی پارٹی کے ساتھ کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے تو کیسے یقین کیا جائے گا اور کیسے بہام پیدا نہیں ہو گا؟
نگران وزیر اعظم کچھ بھی کہتے رہیں ، جتنی مرضی وضاحتیں دیتے رہیں ،یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ میاںنواز شریف کی واپسی کیلئے فضا ہی سازگار نہیں ،حالات بھی ساز گار بنائے جارہے ہیں،موجودہ نگراں وفاقی و صوبائی حکومت ان کے خلاف کوئی انتقامی جذبہ رکھتی ہے نہ ہی ان کے خلاف کوئی کاروائی کا ارادہ رکھتی ہے، اگر انہیں دکھائوئے کیلئے وطن واپسی پرکچھ دیر جیل جانا بھی پڑا تو وہ ایک سافٹ جیل ہی ہو گی

اور یہ بھی ممکن ہے انھیں پہلے ہی عبوری ضمانت مل جائے،یہاں بروقت کچھ بھی ہو سکتا ہے ،لیکن ایک بات طے ہے کہ میاں نواز شریف جیل جانے نہیں اقتدار میں آنے کی یقین دہانی کے ساتھ ہی آرہے ہیں۔مسلم لیگ (ن)قیادت ایسے ہی پرُ اعتماد نہیں ہے ، مر یم نواز ملک میں خو شحالی لانے کے دعوئے کررہی ہیں اور میاں شہباز شریف ایک بار پھر شیر کی دھاڑ سنا رہے ہیں ، تاہم ان سارے دعوئوں اور نعروں میں کوئی خاص جان دکھائی نہیں دیے رہی ہے

، مسلم لیگ (ن)کے سارے ہی دعوئے اور نعرے عوام کے آزمائے ہوئے ہیں ، اس ملک میں شیر ایک بار نہیں کئی بار دھاڑا ہے اور اس شیر کے سارے دعوئے دھرے کے دھرے ہی رہے ہیں ، مسلم لیگ( ن)کے ادوار میں پہلے کوئی خوشحالی آئی نہ ہی آئندہ کوئی آنے کی اُمید کی جاسکتی ہے، گزشتہ سولہ ماہ دور اقتدار کی کار کردگی بھی سب کے سامنے ہے،مسلم لیگ( ن) سمیت بارہ سیاسی جماعتوں کی قیادت ایسے ہی دعوئوں کے ساتھ آئے تھے ،مگر ان سب نے مل کر ملک کو خوشحالی کے بجائے معاشی دلدل میں ہی دھکیلا ہے ۔
عوام سے اب کوئی بات بھی پو شیدہ نہیں رہی ہے ، عوام سب کچھ جانتے ہیں اور بہتر فیصلہ کر نے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ، عوام کو ہی فیصلہ کر نے کا اختیار دینا چاہئے ، عوام بار بار حق رائے دہی کا تقا ضا کررہے ہیں ، عوام بر وقت انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں ،مگر انہیں انتخابات دینے کے بجائے آزمائے دعوئوں اور نعروں کے پیچھے لگایا جارہا ہے ،اگر میاں نواز شریف واپس آتے ہیں تو فیصلہ قانون کے مطابق ہی ہو نا چاہئے کہ انہوں نے جیل جانا ہے یا انتخابات میں حصہ لینا ہے ،اس پرنگران حکومت کی جانب سے حاشیہ آرائی کے بجائے آئین و قانون کی عملداری سے برآمد ہونے والے نتائج کا انتظار کرنا چاہئے،

نگران وزیراعظم کو ان معاملات پر کسی رائے کے اظہار سے بہرصورت گریز ہی کرنا چاہیے اور اسے مجاز فورموں کیلئے چھوڑ دینا چاہیے، نگران حکومت کا اصل کام بہرکیف بروقت انتخابات کرانا ہے، تاکہ ملک میں منتخب حکومت کا قیام عمل میں آئے ،جوکہ مکمل آئینی اختیارات کے ساتھ کاروبار مملکت چلائے

،اس کیلئے ا نتخابی میدان بلاتفریق تمام جماعتوں کیلئے کھلا ہو نا چاہئے،تاکہ ساری ہی سیاسی جماعتیں اپنے منشور اور اپنی کار کردگی کے ساتھ بھرپور انداز میں انتخابی میدان میں اُترکرخود کو محاسبے کیلئے عوام کے سامنے پیش کرسکیں ، عوام سب کا ہی محاسبہ خود کر نا چاہتے ہیں،اگر اس بار بھی عوامی محاسبے سے روکا گیا یا ٹال مٹول سے کام لیا گیاتو ایک ایسا انتشار برپا ہو گا کہ جس سے نکلنا سب کیلئے ہی انتہائی مشکل ہو جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں