کب تک کوئی برداشت کرے ! 68

جمہوریت کا ادھوراخواب !

جمہوریت کا ادھوراخواب !

پا کستان میں لاکھ کوشش کے باوجود ابھی تک حقیقی جمہوریت آپائی ہے نہ ہی عوام کو منصفانہ حق رائے دہی مل پایا ہے ،ملک میں آئیڈیل جمہوریت لانے کی کوشش کرنا بہت اچھی بات ہے، لیکن اس کے لیے سب سے پہلے کڑوے حقائق تسلیم کرنا ہو گے ،ہمیں ماننا پڑے گا کہ اس ملک میں کبھی منصفانہ شفاف عام انتخابات ہوئے نہ ہی عوام کے منتخب کردہ نما ئندوں کو کبھی مکمل اختیارات ملے ہیں ،اس ملک میں جمہوریت پوری طرح کبھی قائم ہوئی نہ ہی ہو نے دی جارہی ہے ، یہاں پر جمہوریت کی آڑ میںطاقتورحلقے اپنے آمرانہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف چالیںچلتے رہے ہیں

اور جمہوریت کے نام نہادے دعو ئیدار ہی غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیتے آرہے ہیں تو پھر حقیقی جمہوریت کیسے آئے گی اور کیسے حقیقی جمہوریت کا ادھورا خواب پورا ہو پائے گا ۔پا کستانی عوام کیلئے بڑے خواب دیکھنا اچھی بات ہے ، لیکن اپنے بڑے خوابوں کی تعبیر حاصل کر نے کیلئے درست سمت کا تعین بھی ضروری ہوتاہے ،اپنی ذاتیات سے نکل کر قومی مفاد کا خیال کر نا ضروری ہوتاہے ،اپنے میںسے ہی اپنے حقیقی نمائندوں کا انتخاب کر نا ضروری ہوتاہے ، آئیڈیل جمہوریت اُوپر سے آئے گی نہ ہی اُوپر سے کوئی فرشتے اُتریں گے،

عوام کو ہی اپنے حقیقی نمایندے مضبوط و مستحکم بنا کر پارلیمنٹ میں بھیجنا ہوں گے اور یہ حقیقی نمائندے ہی پارلیمان کو با اختیار بنا کر حقیقی جمہوریت کا ادھورا خواب پورا کر پائیں گے۔عوام عرصہ دراز سے اپنے حقیقی نمائندوں کا انتخاب چاہتے ہیں ، عوام چاہتے ہیں کہ انہیںاپنے حقیقی نمائندگی کے انتخاب کا موقع دیا جائے ،لیکن عوام کو ایک عر صے سے حقیقی حق رائے دہی سے محروم ہی رکھا جارہا ہے

، اگر کبھی حق رائے دیا جاتا ہے تو نتایج بدل دیے جاتے ہیں ، سیاسی جماعتیں دھاندلی کا شور بہت مچاتی ہیں ، شفاف انتخابات کا راگ بھی آلا پتی ہیں ، مگر شفاف انتخابات کیلئے کوئی اقدامات کرنے سے گریزاں رہتی ہیں ،اس ملک میں جب تک شفاف انتخابی نظام نہیں لایا جائے گا ، اس وقت تک عوام کی حقیقی قیادت آئے گی نہ ہی حقیقی جمہوریت پنپ پائے گی ۔یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ اس ملک کی جمہوری جماعتیں ہی جمہوریت سے عاری ہیں ، یہاں پر کسی سیاسی جماعت میں کہیں کوئی جمہوری رویہ دکھائی نہیں دیتا ہے

، ساری سیاسی جماعتوں کی قیادت عوام سے دوراور عوام اُن سے دور ہو چکے ہیں، سیاسی قیادت اپنے جلسے جلوس کر کے تاثر دینے کی کوشش ضررور کرتے ہیںکہ عوام اُن کے ساتھ ہیں ، جبکہ وہ جانتے ہیں کہ عوام اُن سے انتہائی دور ہو چکے ہیں ، سیاسی قیادت نے بھی عوام کے بجائے طاقتور حلقوںکو ہی راضی رکھنا اپنا ہدف بنالیاہے ، کیو نکہ وہ جان چکے ہیں کہ اقتدار میں لانے اور نکالنے والے عوام نہیں ، طاقتور حلقے ہیںاور انہیں ہی راضی رکھنا ہے۔یہ اقتدار کی بند بانٹ کا کھیل پون صدی سے مسلسل کھیلا جارہا ہے

اور عوام بے بس تماشائی بنے ہوئے ہیں ، عوام کا اتنا سا ہی کام رہ گیا ہے کہ وقت آنے پر قطاروں میں لگ کر اپنا ووٹ ایسے لوگوں کو ڈالیں، جو کہ ان کے نمائندے نہیں ،بلکہ اس سیاسی کھیل کے مہریں ہیں اور اپنے لانے والوں کے اشاروں پر ہی چلتے ہیں ، یہ عوام جا نتے ہیں اور شعور بھی رکھتے ہیں ،اس لیے ہی انتخابات میں ستر فیصد عوام کے ووٹ ڈالنے کی شرح تیس فیصد تک ہی رہتی ہے ،اس نظام سے عوام کی اکثریت بدل ہو چکی ہے ، لیکن یہ بات بند کمروں میں بیٹھے فیصلہ سازوں کی سمجھ میں ہی نہیں آرہی ہے ۔
اس وقت پاکستان جس خطرناک موڑ پر آ چکا ہے، اس کے لیے اب عوام کی خشنودی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا ہے، لہٰذا لازم ہے کہ جمہوریت کی طرف ہی اپنا سفر جاری رکھا جائے، ملک کی معیشت بھی صرف اسی صورت میں ترقی کرے گی اور ملک کا دفاع بھی اسی صورت میں مستحکم و مضبوط ہوگاکہ جب عوام کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے گا،پاکستانی عوام خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے کرتے تھک چکے ہیں،

عوام اب غربت، بے روزگاری، افلاس، مہنگائی سے نجات چاہتے ہیں، ملک کے غریب عوام بہت مشکل اور دکھ میں ہیں، انھوں نے بہت فاقے اور بہت خودکشیاں کر لی ہیں،غربت، بھوک سے نجات اور خوشحالی اور خوشیاں ان کا بھی حق ہیں، لہٰذ ا آج مائنس ون اور مائنس ٹو کے بجائے صرف عوام کو طاقتور، خوشحال بنانے کے ایجنڈے پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سب کو ہی مل کر کام کرنا ہوگا،بصورت دیگر جمہوریت بچے گی نہ ہی آمریت قبول کی جائے گی ، سب کچھ سب کے ہی ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی ایک دوسرے کو بچا بھی نہیں پائے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں