کب تک کوئی برداشت کرے ! 30

کب تک کوئی برداشت کرے !

کب تک کوئی برداشت کرے !

پاکستانی قوم واقعی بیوقوف ہے یا انہیںسیاستدان اتنا بیوقوف سمجھتے ہیںکہ آزمائے کو ہی آزماتے چلے جائیں گے،مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اقتدار کی تین تین باریاں لے چکے ہیں ،لیکن انہوں نے ہر بارعوام کو مایوس ہی کیا ہے،اس کے باوجود اقتدار کی چو تھی باری کی دوڑ لگی ہے ،میاں شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کے دور میں قوم کی ایسی کی تیسی کر چکے،اب میاںنواز شریف کو لا یا جار ہاہے ،

لیکن انہیں لانے والوں کے ساتھ انہیں خود بھی سوچنا چاہیے کہ ایسے حالات میں اِن کا آنا بہتر ہوگا اوران کی مشکلات مزید نہیں بڑھیں گی،ویسے بھی ملک اب آزمائی سیاست اور آزمائے سیاستدانوں کی تجربہ گاہ بننے کا مزیدمتحمل نہیں ہوسکتاہے۔یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ چلے کار توس کچھ نہیں کر پائیں گے ،اس کے باوجود فیصلہ ساز بضد ہیں کہ انہیں ہی آزمائیں گے ، انہیں ہی دوبارہ لائیں گے ،

یہ ہدف ایک سازش کے ذریعے حاصل کیا گیا اور اب نواز شریف ببر شیر کاروپ دھار کر اکیس اکتوبر کو پا کستان پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں ،اس ببر شیر کا مقابلہ قیدی عمران خان کے ساتھ کروایا جارہا ہے ،لیکن میاں نواز شریف ایک قیدی سے بھی ڈررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس قیدی کو پہلے نااہل کروایا جائے تو پھر مقابلہ کریں گے ،یہ حزب مخالف کے بغیر کیسا مقابلہ ہو گا اور اس کے نتائج کون مانے گا ،مگر شاید نوزاز شریف بلا مقابلہ ہی چوتھی بار وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔
یہ مسلم لیگ (ن ) قیادت کی خواہش ضرور ہے

،مگراسے ممکن بنانا اتنا آسان نہیں ہے ، ایک طرف عوام کا بدلا ہوا موڈ ہے تو دوسری جانب آزاد عدلیہ ہے ، اس ملک کی سیاست میں جوڑ توڑ کے ساتھ زور زبر دستی بیانات دلواکر پارٹی کمزور تو کی جاسکتی ہے ، مگر پارٹی بین کی جاسکتی ہے نہ ہی قیادت نااہل کی جاسکتی ہے، پی ٹی آئی قیادت اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کررہے ہیں اور اُمید رکھتے ہیں کہ انہیں آزاد عدلیہ سے انصاف ملے گا ، عوام بھی پرُ اُمید ہیں کہ انصاف کا ترازو کسی مصلحت کے بوجھ سے کسی ایک جانب جھکے گانہ ہی کوئی عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے گا،آزاد عدلیہ کا ہر فیصلہ بلاامتیاز انصاف پر مبنی ہی آئے گا۔
اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے ہی مسلم لیگ( ن)قیادت، پی ڈی ایم قیادت کو بھی آگے لارہے ہیں اور مولانا فضل الرحمن جو پی ٹی آئی سے ہردم مقابلے کے دعوئیدار رہے، انہوں نے بھی اب کہنا شروع کر دیاہے کہ معیشت کی بحالی انتخابات کے انعقاد سے بھی زیادہ ضروری ہے ،یہ سب ہی انتخابات کے نتائج سے خوف زدہ ہیں ،یہ جانتے ہیں کہ انتخابات میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کر پائیں گے نہ ہی جیت پائیں گے ،

اس صورت حال کا علاج ان کی سمجھ سے بالا تر ہے ، اس پر یشانی کا ایک ہی حل دکھائی دیتا ہے کہ اگر عدلیہ اجازت دے تو نگران سیٹ اپ کی قیادت میاں نواز شریف کو سونپ دی جائے ،تاکہ اُن کی در ینہ خواہش پوری ہونے کے ساتھ اُن بے چین روحوں کو بھی قرار آجائے ،جوکہ آزمائے کوہی آزمانے کیلئے بے قرار رہتی ہیں ۔
یہ بے چین روحیں جتنا آزمائے کیلئے بے قرار ہیں ،کاش عوام کیلئے بھی اتناہی بے قر ارہوتیں تو آج حالات اتنے خراب نہ ہوتے ، عوام کبھی کسی کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہے،یہ بات کھل کر عوام کے سامنے آچکی ہے ، سبھی کے پول کھل چکے ہیں ، سبھی کی چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں ،اب کچھ بھی عوام سے پو شیدہ نہیں رہا ہے، بس حساب واحتساب ہو نا باقی ہے ،جو کہ ایک دن عوام ضرور کر یں گے ، عوام کی عدالت آج نہیں تو کل ضرور لگے گی ،یہ کب تک عوامی عدالت سے بھاگتے رہیں گے

، کب تک راہ فرار اختیار کرتے رہیں گے ، ملک ایک بار پھر جن کے ہتھے چڑھا ہے ،انہوں نے کبھی عوام سے وفا کی ہے نہ ہی ان کی تر جیحات میں عوام کبھی رہے ہیں ،یہ سب کب تک کوئی برداشت کرے،عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو تا جارہاہے، اس بار عوام بے وفا سے وفا کر نے کے موڈ میںدیکھائی نہیں دیتے ہیں، عوام اپنی کوتاہیوں کا جہاں ازالہ کرنا چاہتے ہیں ،وہاں یہ سبق بھی دینا چاہتے کہ کوئی کچھ بھی کر لے، کوئی ڈیل کرے یا ڈھیل ملے ، عوام کسی بہکائوئے میں آئیں گے نہ ہی کوئی دھوکہ کھائیں گے ، آزمائے کو آزمائیں گے نہ ہی دوبارہ اقتدار میں لائیں گے ،بلکہ بار بار عوام کی اُمیدیں توڑنے والوں کو اس بارعبرت کا نشان بنائیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں