مِٹی کے گھروندوں سے سوندھا رومانس ! 63

شکوک وشبہات کے چھٹتے بادل !

شکوک وشبہات کے چھٹتے بادل !

ملک میں انتخابات کا چاند طلوع ہو چکا ہے،سیاسی جماعتیں اپنی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں،جبکہ ان انتخابی بکھیڑوں سے کوسوں دور عوام اپنے مسائل کے گھن چکر میں پس رہے ہیں، عام آدمی کے نزدیک اِن انتخابات کی کوئی وقعت ہے نہ ہی کوئی ساکھ ہے ،پی ڈی ایم حکومت قوم پر جو مہنگائی کے بم گر کر گئی ہے ، اس کے اثرات تا دیر موجود رہیں گے، اس وقت عوامی موڈ انتہائی خطرناک ہے،

ایک طبقے کا اظہار لمز میں بچوں کے سوالات کی صورت میں سامنے آیا ہے ،جوکہ معاشرے میں موجود غصے بے چینی اور ناراضی کی علامت ہے،جبکہ دوسری جانب معاشرے کا بہت بڑا طبقہ خاموشی کے ساتھ لا تعلقی اختیار کیے ہوئے ہے ،اگرصورتحال ایسی ہی رہی تو انتخابات میں ٹرن آئوٹ جہاں خطرناک حد تک کم رہے گا،وہاں عام انتخابات کے نتائج بھی کوئی نہیں مانے گا ۔
یہ حقیقت ہے

کہ عوام انتخابات چاہتے ہیں ، مگر ایسے انتخابات نہیں چاہتے ہیں کہ جس کا رزلٹ انتخابات سے پہلے ہی دکھائی دیے رہا ہے ،اگر ایسے انتخابات ہونے ہیں تو عوام کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، عوام پہلے ہی سخت معاشی بحران سے گزر رہے ہیں، عام لوگوں کے مالی حالات تاریخی مہنگائی کی وجہ سے انتہائی خراب ہوچکے ہیں، چوبیس کروڑ کی آبادی کے نوے فی صد لوگ اب بچت کے بجائے روزانہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے فکر مند رہتے ہیں، ایسے حالات میںایسے منتخب انتخابات کے لیے پچپن ارب روپے کے اخراجات کرنا

،کہاں کی عقل مندی ہے ،لیکن جس ملک میں بدترین جمہوریت کو بدترین آمریت سے بہتر سمجھا جانے لگے، جہاں صرف اشرفیہ سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ہی اقتدار کے حصول کے راستے کھلے ہوں، اس کے باوجود ہر مسئلے کا حل جیسے تیسے عوامی حکومت کو سمجھ لیا جائے، وہاں کے حالات کی جلد یابد یر بہتر ہونے کی توقعات سے زیادہ مزید خراب ہونے کے ہی خدشات رہتے ہیں۔
اس ملک میں آزادانہ شفاف انتخابات کبھی ہوئے نہ ہی آئندہ ہوتے دکھائی دیے رہے ہیں ، اگر اس بار بھی انتخابات کسی ڈیل کے تحت ہی ہونے ہیں توغریب ملک کے اربوں روپے ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے

، اپنی مرضی سے جسے وزیراعظم بنانا ہے ،ویسے ہی بنا دیں، عوام کو کوئی اعتراض ہے نہ ہی عوام کا کوئی اعتر اض کبھی مانا جاتاہے ،عوام کا اعتراض مانا جا رہا ہے نہ ہی عوام کو حق رائے دہی دیا جارہا ہے ، اس ملک میں عام انتخابات اب صرف بااثر دولت مند لوگوں کی ہی دلچسپی کا محور بن کر رہ گئے ہیں،

عام افراد جو اپنا کما کر اپنا ہی کھاتے ہیں اور اپنے اہل خانہ کا گزر کراتے ہیں، انہیں اب ایسی مفاد پرست سیاست اور ایسی نام نہاد جمہوریت سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے،کیو نکہ عوام جان چکے ہیں کہ انتخابات کا ڈھونگ عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے رچایا جاتا ہے ، اس کے نتائج کہیں اور ہی بنتے ہیں اور عوام کو سنا دیئے جاتے ہیں ۔
ہر دور اقتدار میں آزادنہ شفاف انتخابات کا شور شرابا ہی کیا جاتا ہے ، انتخابی اصلا حات کا بل بھی لایا جاتا رہا ہے ،لیکن یہ بل کبھی منتخب ایوانوں سے منظور نہیں کریا جاسکا ہے ، اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب 8 فروری کو ہونیوالے انتخابات بغیر انتخابی اصلاحات کے ہی کرا دیے جائیں گے؟

عدالت عظمیٰ نے انتخابی تاریخ کا فیصلہ تو کر دیا ،مگر انتخابی اصلاحات پر فیصلہ کیا نہ ہی پنجاب ،کے پی کے انتخابات کی تاریخ پر فیصلہ دیا ،حالانکہ اس کاحکم عدالت نے جاری کیا تھا ، اس سے تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اب عدالتیں افہام و تفہیم کرانے کے لیے ہی رہ گئیں ہیں ،اگر عدالتیں انصاف پر مبنی فیصلے کرنے اور ان پر عملدر آمد کر نے کے بجائے افہام و تفہیم پر زور دیتی رہیں گی تو پھر آئین و قانون کی پاسداری کون کرائے گا ؟آئین و قانون کی پا مالی کر نے والوں کو نشان عبرت کون بنائے گا؟
اس ملک میں ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کام ہی کر نا چاہئے ،اگر ادارے اپنی حدود میں رہیں تو کبھی اختلافی معاملات انتشار کا باعث نہیں بنتے ہیں ،لیکن یہاں ہر کوئی اپنی حدو سے تجاوز کررہا ہے اور مود الزام دوسرے کو ٹہرائے جارہا ہے ،اس صورتحال کے سب ہی ذمہ دار ہیں توسب کو ہی اجتماعی ذمہ داری قبول کر نی چاہئے ، اس کی بہتر ین صورت ہو گی کہ مل بیٹھ کر معاملات طے کیے جائیں

اور باہمی اتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے کہ ہم نے ملک وقوم کو لے کر کس طرف جانا ہے ،ہم نے سیاسی اختلافات بڑھاتے ہوئے ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچنے کی تاریخ دہرانی ہے یا آزادانہ شفاف انتخابات کے ذریعے پارلیمانی دور حکومت میں ہر فریق نے اپنا اپنا جمہوری کردار ادا کر نا ہے ۔
یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت افہام و تفہیم کی باتیں کررہے ہیں ، آزادانہ شفاف انتخابات کرنے کی باتیں کررہے ہیں ، حالانکہ جانتے ہیںکہ اس ملک میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ،

اُن کے نتایج پر اُنگلیاں ہی اُٹھتی رہی ہیں اور اب جو انتخابات ہونے جارہے ہیں ،اس حوالے سے بھی انتخابات سے قبل ہی شوک و شبہات کے بادل چھانا شروع ہو چکے ہیں ،ان کا سدباب ضرورہ ہے اور یہ سد باب اہل سیاست کے ساتھ اداروں نے مل کر ہی کرنا ہے ، اگر اہل سیاست کے ساتھ ادارتی عہدیداروں نے مل کر کوئی لائحہ عمل بنا لیا تو ملک وقوم کی سمت درست ہو جائے گی اور سیاست پر چھائے شک و شبہات کے بادل بھی چھٹ جائیں گے، اس حوالے سے پا کستانی قوم کچھ نہیں تو دعا ضرور کر سکتی ہے کہ پر دیگار ہمارے ملک کی خیر فرما اور ہماری ساری ہی قیادت کو اپنے ذاتی مفادات سے آگے بڑ ھ کر ملکی مفادات کیلئے سو چنے کی توفیق عطا فر ما ،آ مین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں