مِٹی کے گھروندوں سے سوندھا رومانس ! 53

عوام کا استحصال کب تک ۔!

عوام کا استحصال کب تک ۔!

ملک میں نئے الیکشن کی تیاریاں ہو نے لگی ہیں ، اہل سیاست بھی الیکشن کی تیاریوں میں مصروف نظر آنے لگے ہیں؛ لیکن عام آدمی تاریخی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان حال ہی دکھائی دیے رہاہے ، اْسے الیکشن کی کوئی پرواہ ہے نہ ہی الیکشن کی تیاریوںسے کوئی غرض ہے ،یہاں ہر کوئی ملک سے بھاگنے کے راستے تلاش کرتا پھر رہا ہے، لیکن اس ملک سے بھاگ وہی سکتا ہے کہ جس کے پاس وسائل ہیں،

اگر اس ملک کے غریبوں کے پاس ملک کو چھوڑ جانے کے وسائل ہوتے تو یہ ملک کب کا خالی ہو چکا ہوتا، اس ملک میں جس طرح کا ظالمانہ استحصال غریبوں کا ہو رہا ہے، شاید ہی دنیا کے کسی خظے میں ہورہا ہے ، لیکن یہاں غریب کا احساس کر نے والوں کو اقتدار کی ہی فکر کھائے جارہی ہے ، ایک چوتھی بار وزیر اعظم بنا چاہتا ہے تو دوسرا اپنے بیٹے کو وزیر اعظم بنانا چاہتا ہے ، جبکہ اس اقتدار کی بندر بانٹ میں عوام ذلیل و خوار ہی ہونے کیلئے رہ گئے ہیں۔اس وقت ملک میں نگراں حکومت قائم ہے

اور اس نگران حکومت ہی کی نگرانی میںنئے انتخابات ہونے جارہے ہیں، نگران حکومت دعوئیدار ہے کہ آزادانہ شفاف انتخابات کرائے گی ،لیکن آزادانہ شفاف انتخابات دور دور تک ہوتے دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ، اس نگران حکومت میں ایک طرف انتخابات کا بگل بجایا جارہا ہے تو دوسری جانب ایک لاڈلے کو کراچی سے خیبر تک ہر طرح سے پر موٹ کیا جارہا ہے ،نگران حکومت پوری طرح سے ایک سیاسی جماعت کیلئے متحرک ہے ، جبکہ دوسری سیاسی جماعتیں لیو ل پلینگ فیلڈ نہ ملنے کا شکواہ کرتی ہی دکھائی دیتی ہیں، اس ماحول میں کیسے آزادانہ شفاف انتخابات ہوں گے اور اس کے نتائج کو کون مانے گا َ ،لیکن اس کی نگران حکومت کو کوئی پرواہ ہے نہ ہی اس پر الیکن کمیشن فکر مند دکھائی دیتا ہے۔
یہ سب کچھ ملی بھگت کے تحت ہورہا ہے کہ ا یک ڈیل کے تحت ،لیکن اس کے نتائج اچھے نکلتے دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ،اگر اس طرح کوئی اقتدار میں آبھی گیا تو حکومت کیسے چلائے گا ،جبکہ اس طرح آنے والوں کے پاس کوئی منشور ہے نہ ہی کو ئی ایسا پروگرام ہے کہ جس کے ذریعے ملک کو در پش بحرانوں سے نجات دلائی جاسکے ، یہ سارے ہی آزمائے ہوئے لوگ ہیں ، یہ بار ہا بڑے بڑے دعوئوں کے ساتھ اقتدار میں آئے اور اقتدار میں آنے کے بعد ان کے سارے دعوئے دھرے کے دھرے رہ گئے تھے ، انہوں نے خود کو بنانے اور بچانے کے علاوہ کچھ کیا نہ ہی آئندہ کچھ کر نے والے ہیں ، اس کے باوجود فیصلہ ساز بضد ہیں تو اس کا خمیازہ پہلے بھی عوام نے ہی بھگتا ہے ،آئندہ بھی عوام ہی بھگتیں گے ۔
عوام کا کوئی پر سان حال نہیں ، عوام جائیں تو جائیں کہاں ، کس کے در پر صدا لگائیں، کہاں فریاد کریں ، عوام کی صدائیں سننے والا ہے نہ ہی کوئی دادرسی کرنے والا دکھائی دیتاہے، عوام کو حق رائے دہی دیا جارہا ہے نہ ہی فیصلہ سازی میں شامل کیا جارہا ہے ، عوام پر بند کمروں کے فیصلوں کو ہی بار بار مسلط کیا جارہا ہے ،

عوام بند کمروں کے فیصلوں سے نجات چاہتے ہیں ، عوام اپنے فیصلے خود کر نا چاہتے ہیں ،مگر انہیں بند کمروں کے ہی فیصلے ماننے پر مجبور کیا جارہا ہے ، آزمائے کو ہی آزمانے پر مجور کیا جارہا ہے ،لیکن یہ سب کچھ اب زیادہ دیر تک نہیں چلے گا ،عوام کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہو نے لگا ہے ،سیاست کی ہوائوں کارخ بدلے نہ بدلے ، لیکن عوام کی سوچ کا رخ ضرور بدلنے لگا ہے ، عوام فیصلہ کر چکے ہیں کہ کوئی کچھ بھی کرلے ، اس بار آزمائے کو دوبارہ نہیں آزمائیں گے۔یہ کتنی عجب بات ہے کہ ایک طرف عوام کو ہی طاقت کا سر چشمہ کہا جاتا ہے تو دوسری جانب عوام کے ہی من منشاء کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہیں،

عوام کا استحصال روکا جا رہا ہے نہ ہی عوام کی زندگی آسان بنائی جارہی ہے ،اللہ تعالی ہی اس ملک کے عوام پر رحم کھائے اور ان کی حالت کو بہتری کی جانب نہ صرف گامزن کر دے، بلکہ فیصلہ سازوں کے دل میں بھی عوام کی تھوڑی محبت ڈال دے، اس کی اُمیدکم ہی نظر آتی ہے، اس لیے اداروں سے بھی عوام مایوس نظر آنے لگے ہیں، جو کہ کسی طرح بھی اچھا شگون نہیں ہے،اس صورتحال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ملک کے ادار وں کو ،جنہیں عوام ابھی تک اپنا ہمدرد ہی سمجھتے ہیں،

کچھ آگے بڑھ کر ملکی حالات کو نہ صرف سنبھالنا چاہیے ،بلکہ عوامی استحصال کا خاتمہ کرتے ہوئے اپنے فیصلے خود کرنے کا حق دینا چاہئے ،اس میں ملک وعوام کے ساتھ سب کی ہی بہتری ہے ، بصورت دیگر ملک میںنہ صرف انتشار بڑھتا دکھائی دیتا ہے،بلکہ حالات بھی ایسے بے قابو ہوتے دکھائی دیے رہے ہیں کہ جنہیں کوئی قابو کر ہی نہیں پائے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں