45

1400 سال قبل جہاد ہی سے پورے عالم میں پھیلا تھا اور اب بھی یا حسن اخلاق سے دئیے گئے دعوت اسلام کو کون رد کرسکا ہے؟

1400 سال قبل جہاد ہی سے پورے عالم میں پھیلا تھا اور اب بھی یا حسن اخلاق سے دئیے گئے دعوت اسلام کو کون رد کرسکا ہے؟

نقاش نائطی
۔ +966562677707

ایسی اعلی تعلیم یافتہ قوم،جس نے عالم کی آبادی میں دو فیصد اپنی حصہ داری باوجود،عالم کی اور اقوام کے مقابلہ عالم کےسب سےتوقیریت والے نوبل انعام کو، نہ صرف سب سے زیادہ اپنی جھولی ہی میں سمیٹا ہے،بلکہ عالم کی معشیت و دولت کے نصف سے زیادہ حصہ پر بھی دسترس حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں

۔ یہی نہیں عالمی میڈیا کوبھی انہوں نے اپنا اسیر بنالیا ہوا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ اورعالمی معشیت پر اپنی مضبوط گرفت ہی کی وجہ سے،اسرائیل عالم کی آبادی کا دو فیصد ہونے کے باوجود، نہ صرف عالم کے انیک ملکوں کے داخلی امور پر بے جا مداخلت کرتا پایا جاتا تھا بلکہ حربی اعتبار سے عالم کی سربراہ مملکت، صاحب امریکہ کے سیاسی ایوانوں تک پر دسترس حاصل کئے، امریکہ کو سامنے رکھ، عالم کی پانچ چھ بڑی حربی قوتوں کا گٹھ جوڑ بنائے، وہ جس ملک کو چاہے تاراج کرواتا رہتا تھا۔ عالمی معشیت کا وہ بے تاج بادشاہ رہتے پس منظر میں، امریکہ کے توسط سے اقوام متحدہ کے ماتحت بنائے گئےعالمی بنک سے، ھند و پاکستان سمیت غریب و پسماندہ افریقی ممالک کو سود پر قرض دئیے

انہیں اپنا مقروض بنائے، ان ممالک کے معدنیات پر ڈاکہ ڈالے ان ملکوں سے اپنے قرض کے مقابلہ کئی گنا زیادہ سود کی صورت وصول کئے جانےکے باوجود،ان ملکوں پر درپردہ وہ اپنی متوازی حکومت چلاتے ہوئے، نہ صرف عالم کے لئے،وہ ایک لازوال حربی طاقت والا لاتسخیر ملک اپنے آپ کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا بلکہ 1943 کے ان ایام دوسری عالمی جنگ بعد، یورپی ممالک سے،اسے باہر کئے وقت، اسے اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دینے والے ملک فلسطین پر جارحانہ قبضہ جمائے

، انہیں انکے اپنے ملک فلسطین ہی میں کھلی جیل والی قید و بند میں رکھے، ان پر ہر اقسام کے ظلم کئے جانے کے باوجود، فلسطین کے اطراف والے بڑے بڑے عرب ممالک مصر جارڈن شام سعودی عربیہ تک کو، اسکے، فلسطینیوں پر کئے، ظلم و جبر پر آواز اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔ الٹا وہ صاحب امریکہ کو درمیان میں ڈالے،ان عرب شیوخ کو بلیک میل کئے،

ان سے یعنی اسلام دشمن اسرائیل سے، سفارتی تعلقات قائم کئے، فلسطینی ریاست کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے وہ درپے تھا۔1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد 56 لمبے سالوں تک ان کے ملک فلسطین پر قابض اسرائیلی افواج کے ظلم و ستم کو سہتے،انکے نرغے میں رہنے والے فلسطینیوں نے، ان پڑوسی عرب مملکتوں سے مدد کی امید چھوڑے،اپنے اللہ کے بھروسے، اپنے ملک کو ان ظالم یہودیوں سے آزاد کرانے کا بیڑہ،1987 شیخ احمد یسین، عبدالعزیز رنتیسی اور حسن یوسف عرف عام دار الخیل کے اپنے شروع کئے پہلے انتقاضہ سے، حماس مذاحمتی تحریک جہاد فی سبیل اللہ شروع کی گئی تھی

۔عالم کی چوتھی بڑی حربی طاقت اسرائیل سے جنگ لڑ کر اپنے ملک اورقبلہ اولی کوآزاد کرانا، اتنا آسان کام نہ تھا۔ پھر بھی حماس کے مجاہدوں نے، اپنے اللہ پر یقین و ایمان کامل نیز، اہل سلف والے عملی زندگی کو ساتھ ساتھ لئے، اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ سابقہ 75 سالہ اسرائیلی ظلم و انبساط اور سابقہ 36 سالہ اسرائیل سے معرکہ آرائی کے بعد ، وہ جدید حرب کے اعتبار کندن بن چکے تھے۔اپنی پوری حربی تیاری کے ساتھ 6 اکتوبر کو انہوں نے اسرائیل پر یلغار شروع کردی تھی۔
عالم پر خلافت راشدہ سے خلافت عثمانیہ تک تیرہ سو سالہ اسلامی حکومت کے خلاف، عالم یہود و نصاری کی ریشہ دوانیوں سےسکوت استنبول ترکیہ بعد، عالم پر شروع ہوئی مسیحی حکمرانی نے،انکے خلاف کسی مسلم ملک سے،جہادی تحریک نہ شروع ہو، اس کے لئے،ایک طرف عوامی جمہوریت کا شوشہ چھوڑے، انیک ملکوں پر سیاسی غلبہ حاصل کیا گیا تھا، وہیں پر عرب شیوخ کو اپنا اسیر بنائے رکھنے کے لئے، ان کے درمیان فلسطین کے ایک حصہ پر اسرائیل کولابساتے ہوئے، ان عربوں کو نکیل ڈالنے کا کام کئے، ان کو اپنا اسیر بنالیا گیا تھا۔

سکوت استنبول کے وقت تمام تر ممالک کی مشترکہ مسیحی افواج میں روس و امریکہ دو سب سے بڑی حربی قوتیں تھیں پورے عالم کا اکلوتا سلطان بننے کی دوڑ میں، اس وقت کی سب سے بڑی حربی قوت روس کو ختم کرنے، صاحب امریکہ نے مسلم عرب ممالک کو، پاکستان کے توسط سے، جس طرح استعمال کر یوایس ایس آر کے انیک ٹکڑے کر، خود عالم کی اکلوتی حربی قوت بن بیٹھا تھا ، وہیں مختلف ٹکڑوں میں بٹ کے کمزور ہوئے روس نے، بتدریج آپنی حربی قوت میں اضافہ کئے، امریکہ سے اپنا بدلہ لینے،مسلم عرب ممالک پر ڈورے ڈالنے ہی میں مصروف و مگن تھا۔ امریکہ عالم پر آپنی حکمرانی قائم رکھنے عالم کے مختلف ملکوں کو آپس میں لڑائے طرفین کو ہتھیاربیچے،معشیتی طور مضبوط ہوتے ہوئے، پورے عالم پر اپنی گرفت مضبوطی سے قائم رکھے ہوئے تھا

،ان دو سانڈوں کی مقابلہ آرائی میں، روس کاپڑوسی ملک چین، تجارت و معشیت کو اپنا ہتھیار بنائے، خود کو معشیتی طور مضبوط کئے، عالمی سربراہی کی دوڑ میں مسلسل آگے بڑھ رہا تھا۔ لگتا تھا ایشیائی ممالک سےامریکہ کاتسلط ختم کرانے،روس و چین نے، آپس میں سمجھوتہ کرلیا ہو۔اسی عالمی حربی دوڑ کا نتیجہ تھا، دونوں فریق ایک دوسرے کے دشمن کو درپردہ حربی و معشیتی مدد کرتے پائے جاتے ہیں۔ بھارت و پاکستان مشترکہ حربی طاقت بن کر نہ ابھریں، اس لئے انہیں مصروف جنگ ہی رکھنے کی سعی رہتی ہے، اسی طرز روس و چائینہ کے پڑوسی ملک یوکرین و تائیوان کو، روس وچین کے خلاف اکسائے، محاذ جنگ میں انہیں الجھائے رکھنے،اور عرب کھاڑی کے طاقت ور سعودی عرب و ایران کے درمیان، شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دئیے، انہیں آپس میں بھڑائے، عربوں کو مصروف جنگ رکھے،

انہیں فلسطینیوں کی فکر سے ماورا جینے پر مجبورکیا جارہا تھا۔ 80 کے دہے سے شروع ہوئی عراق ایران جنگ، شروع کروائے، دونوں فریق کو ہتھیار بیچ عربوں کے پیٹرو ڈالر سے، اپنی معشیت بناتے بناتے،اس جنگ میں حربی طور مضبوط ہوئے، صدام حسین کو ختم کرنے، ایک طرف نوے کے دہے میں، عرب جنگ شروع کی گئی تھی۔ تو دوسری طرف ایران کی حربی قوت کو ختم کرنے،دونوں کے درمیان شیعہ سنی اختلاف پروان چڑھائے، سعودیہ کو یمن پر حملہ کروانے، پر اکسایا گیا تھا۔لیکن ان یہود و نصاری سازشی مکر و فن پر، اللہ رب العزت کی ترکیب بھاری پڑگئی، مسلسل دس سال حالت جنگ میں رہے

ایران نے امریکی سازش سے صدام کے خاتمہ بعد، اگلا نمبر اپنا محسوس کرتے ہوئے، امریکہ کےحربی دشمن روس سے قربت حاصل کر، نہ صرف حربی اعتبار خود مضبوط و طاقت ور ترین حربی قوت بن گیا، بلکہ اپنے اطراف کے عرب ملکوں میں، جو پہلے سے یہود و نصاری سازشی جنگوں سے، خستہ حال ہوچکے تھے، ان ممالک عراق و شام و لبنان، لیبیا و یمن میں،امریکہ مخالف مجاہدین کو حربی و معشیتی طور،ہر اعتبار مدد کرتے ہوئے، ان ممالک میں یہود و نصاری کے خلاف درپردہ اپنی فوجی دستے(پیرا ملٹری فورسز) قائم کر لئے تھے،

جس میں صرف یمن میں دو لاکھ انصاراللہ کے ایک ڈیڑھ لاکھ حوثی مجاہدین اور شام کے 60 ہزار حزب اللہ مجاہدین, فلسطین کے 30 ہزار حماس مجاہدین نیز عراق کے ایرانی مدد یافتہ ہزاروں مجاہدین سر فہرست ہیں، جو ہمیشہ ایران کے اشارے پر امریکی مفاد کے خلاف،ان علاقوں میں موجود امریکی حربی اڈوں پر مکرر حملہ کرتے ہوئے، انہیں نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔امریکی عالمی سربراہی کو کمزور کرنے، روس و چین،

ایران اور اسکے ان عرب ممالک کے درپردہ فوجی دستوں کی کھل کے مدد و نصرت کرتے رہے تھے۔ اسرائیل کو مضبوط کرنے اسکے طاقتور پڑوسی ملک شام پر بمباری کے صاحب امریکہ نے علاقے کے ترقی پزیر شام کو پوری طرح برباد کیا ہوتا اگر روس آگے بڑھ بشار الاسد کی فوجی مدد کر اسے بچانے لیا ہوتا۔
عالمی سطح امریکہ روس و چین درمیان عالمی سربراہی کی دوڑ تگ و دو کے نتیجہ میں، مسلسل حالت جنگ میں رہنے والا مسلم ملک ایران، جہاں حربی اعتبار انتہائی ترقی پزیری کے مدارج طہ کرگیا ہے، بلکہ موجودہ دور کی حربی ڈرون سازی و میزائیل سازی صنعت میں وہ امریکہ و روس کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔

اس کا ثبوت یوکرین پر درپردہ امریکہ روس جنگ دوران, ایرانی ساختہ ڈرون نے،جو اس نے حربی معلومات تبادلہ کے عوض روس کو عطا کئے تھے, میدان کار زار یوکرین امریکہ و یورپی اتحاد, ناٹو عالمی حربی طاقت کو, ناکوں چنے چبوانے پر مجبور کیا ہے۔آور تواور روس سے حربی تعاون اشتراک کے بعد، ایرانی حربی صنعت اس قدر ترقی کے مدارج طہ کرچکی ہے کہ اس کا اندازہ فی زمانہ عالمی سربراہ، صاحب امریکہ بھی لگاتے ہوئے،ایران سے براہ راست پنگا لینے سے خوف کھائے پاتا جاتا ہے۔

ایسے پس منظر ہمیں مستقبل کی عالمی قوت چائینہ کے قائدین کے ممنون و مشکور ہونا پڑیگا جو انہوں عالمی حربی ماحول بدلتے اور کے اسرائیل فلسطین جنگ شروع ہونے سے کافی پہلے، اپنے شیعہ سنی مکتب فکر جدا جدا رکھنے والے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مفاہمت و دوستی قائم کروالی تھی، ورنہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے موجود اسرائیل۔فلسطین جنگ تناظر میں امریکہ کا حلیف ملک سعودی عرب روسی حلیف ملک ایران دونوں ایک دوسرے کے خلاف رہتے،پورے عالم کی مسلم امہ کو دو پلڑوں میں بانٹ چکے ہوتے۔

افسوس ہوتا ہے اپنے آپ کو وارثین و محافظین اسلام کہنے اور درشانے والے عرب سنی مسلم شاہان، اپنی مسلم رعایا کو دنیوی معشیتی ترقی پزیری کی راہ پر گامزن رکھنے ہی میں،اپنے اور اپنے ملک کی عافیت سمجھتے ہیں۔جبکہ رزق کی فراہمی خالق کائینات نےاپنے پاس رکھنے اور ہم مسلمانوں کے رزق،رزاق کے ہاتھوں ہی میں ہونے کا ایمان و یقین رکھنے کے باوجود، اور عام تصور سے پرے، انہیں انہی کے ریگ زاروں کے نیچے، بہتے پیٹرول دولت عطا کئے جانے کے باوجود ، وہ معشیتی کامیابی کے لئے، اپنے اللہ کے فرمان سے روگردانی کرتے دیکھ تعجب بھی ہوتا ہے

اور افسوس بھی ہوتا ہے۔ آج سے چودہ سو سال قبل، اس اسلام کے ابتدائی دور میں،جب سراغرسانی طریق انہیں کفار مکہ کے، ان پر حملہ آور ہونے، مکہ سے نکلتے دشمنان اسلام سرداروں قریش کے لشکر جرار کی کی خبر پہنچتی ہے تو مدینہ ہی میں رہ کر ان کا مقابلہ کرنے کے بجائے، اور مسجد نبوی میں صلاة حاجت پڑھ امت کے بچاؤ کے دعامانگنے کے بجائے، اپنی تنگ دامانی باوجود، جو کچھ حربی قوت وہ جمع کرسکتے تھےاس گھڑ سواری و اونٹ سواری کے دور میں، اپنے 313 بچے بوڑھے جوان فوجیوں کے ساتھ،کم و بیش ڈیڑھ سو کلومیٹر کی طویل مسافت پیدل طہ کئے، مقام بدر پر پہنچ کر،اپنی افواج کو،دوسرے دن دشمن سے بھڑنے والے میدان کار میں مورچہ زن ہونے کی تمام تر ہدایات دئیے، پھر بدر کی وادی میں اپنے خیمے میں، اللہ کے حضور سجدہ زیر ہوئے مدد و نصرت کی دعا مانگنے لگتے ہیں

اور تا قیامت آنے والے ہم مسلمانوں کو، یہ بات صاف طور عملاً، کر دکھا دی جاتی ہے کہ،کسی بھی دشمن وقت کے ساتھ مقابلہ کےلئے، ان کے معیار کے مطابق ، اپنے آپ کو ایک حد تک تیار کئے، دشمن کی طرف دو قدم آگے بڑھتے ہوئے، اس سے مقابلہ کرنا چاہئیے اور پھر رب کائینات سے مدد کی دعا کرنی چاہئیے۔ ہم ہزار ان ایرانی شیعی حکمرانوں کوکوسیں،لیکن ان ایرانی شیعی حکمرانوں نے، اللہ کے رسول ﷺ کے عمل کر دکھائےطریق،دشمن اسلام یہود ونصاری اسلام دشمن سازش کنندگان سے، میدان کارزار میں بھڑنے سے پہلے، موجود جدت پسند حربی تیاری، نہ صرف مکمل کرلی ہے،

بلکہ ڈرون سازی میزائیل سازی میں یکتائیت حاصل کرنے کے باوجود، جس طریق دشمن، انیک مسیحی ملکوں کی حربی مدد کے ساتھ مشترکہ حملہ آور ہوتا ہے،اسی طریق دشمن اسلام، امریکہ و اسکے اتحادیوں کے،انکے دیگر دشمنان چین و روس سے تک حربی معاہدے کئے، اور انیک ملکوں میں امریکی دشمن افواج کو، حربی مدد وتدریب دئیے، انہیں اپنے ماتحت اپنی پیرا ملٹری یا درپردہ افواج کے طور لڑنے کے لئے تیار رکھے،دشمن اسلام امریکہ اسرائیل اورانکےاتحادیوں کو جنگ کے لئے للکارتا ہے

۔ دشمن کے خلاف کئی مورچوں پر اپنی درپردہ فوجی ٹکڑیوں کے قیام کی ایران نے جو کامیاب کوشش کی ہے اسے اس سے، پورے خلیج عرب وفارس علاقوں پر، سالار و سلطان تسلیم کرنے پر ہر کوئی مجبور ہے۔ کاش کہ عرب شاہان، پیٹرو ڈالر عیش و عشرت کے ساتھ ہی ساتھ، اپنے میں خالد بن ولید ،صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زندگی جیسے مجاہدانہ عزائم بھی پروان چڑھا رہے ہوتے۔ تو آج ان اسلام دشمن یہود و نصاری عالمی قوتوں کو عرب مسلم ممالک کو تاراج کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔

یقیناً سنی عرب حکمران بھی ایک حد تک ضرورت مندوں کی، مالی مدد و نصرت کرتے ہیں، لیکن حربی نوعیت کی مدد، ہمیشہ ماضی میں،دشمن اسلام یہود ونصارہ کے اشاروں پر،اپنے مسلم بھائی ممالک عراق و لیبیا افغانستان و یمن کی کمر توڑنے ہی کے لئے صرف ہوئی ہے۔ چند سال قبل، سعودی فرماروا کی طرف سے سابق چیف آف آرمی اسٹاف، المحترم راحیل شریف کی نیابت میں، یورپی ناٹو افواج طرز جو مشترکہ اسلامی افواج قائم کی گئی تھی کیا وہ صرف، انکے دشمن مسلم حکمرانوں ہی کی سرکوبی کے لئے تھیں؟

اور اگر نہیں تو انہی کے جیسے عرب فلسطینی عوام کو،اسرائیلی درندوں کی بمباری شہید ہونے سے بچانے کے لئے، وہ مشترکہ مسلم افواج کو کیوں میدان کار زار میں نہیں اتارا گیا ہے؟ یقیناً ان عرب شاہان کی بھی،کچھ نہ کچھ مجبوریاں رہی ہونگی۔ سابقہ کئی دہائیوں سے دشمن اسلام کے نرغے میں کسے رکھے گئے ،آج ان کے چنگل سے نکلنے، کچھ تووقت لگے گا۔ پھر بھی سعودی کراؤن پرنس اور وزیر اعظم سعودی عربیہ محمد بن سلمان کے، کچھ اقدام پر انکی تعریف لئے بنا رہنا مناسب نہیں لگتا جیسے،آج سے کچھ مہینے پہلے،خطے کے امن کے لئے اسرائیل کو 1967 عرب اسرائیل جنگ سے پہلے والے مقام، یعنی صاف لفظوں میں 1947 والے انکےابتدائی سرحدوں کے اندر سمٹ جانے کا فرمان جاری کرتے،

برابری کی سطح والے دو ملکی آزاد فلسطین و اسرائیل کی آواز بلند کرنا ہے۔ جو آج کے اسرائیل سے فتح حاصل کرتے حماس کے پس منظر میں،قابل قبول نظر آتا ہے، لیکن کچھ مہنیوں پہلے،اسکا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ثانیاً موجودہ حماس اسرائیل جنگ میں، اسرائیل کے معشیتی بحری راستے، باب المندب پر قبضہ جمائے، قابض اسرائیلی فوجوں کو،انکی شہہ رگ سے پکڑے،انہیں حماس کے سامنے حربی اعتبار کمزور کئے، نہ صرف اسرائیلی جہازوں پر، بلکہ امریکہ برطانیہ اور فرانس کےجنگی بحری بیڑوں کو، اسرائیلی جہازوں کی مدد کرنے آگے بڑھنے پر،ان پر براہ راست حملہ کرتے،

عالمی مسیحی حربی قوتوں کو للکارتے پس منظر میں، اسرائیل امریکہ برطانیہ کا مشترکہ نیول فوجی اشتراک بنائے یمن پر حملہ کرتے فیصلے کے خلاف، سعودی عربیہ کا، یمن پرحملہ کرنے، اپنی زمین استعمال نہ کرنے دینے کا دو ٹوک انکار، نہ صرف سعودی وزیر اعظم محمد بن سلمان کا جراتمندانہ اقدام ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے بلکہ برطانیہ فرانس و امریکہ عالمی حربی قوت کے جنگی بیڑوں کی موجودگی باوجود ایرانی انصاراللہ کی طرف سے نہ صرف اسرائیلی بحری جہاز بلکہ اسرائیل کو ہتھیار، تیل اور کھانا پانی سمیت ہراقسام کی اشیاء لے جاتے جہازوں پر حملہ کر انہیں تباہ کرتے یا انہیں اغوا کر لیجاتے لمحات میں بھی،ان عالمی حربی قوتوں کو خاموش تماشائی بنے، بے بس دیکھتے رہنے پر مجبور کرنے کا تمام تر سہرا، دراصل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو جاتا ہے۔ ورنہ تصور کیا جائے،

اگر امریکہ کی منشاء مطابق سعودی سرزمین سے یمن پر حملہ کیا جاتا اور بدلے میں یمن سعودی آئیل ریفائنری پر حملہ کر دیتا تو، فلسطین اسرائیل بقاء کی جنگ کو دو مسلم ملکوں کی آپسی جنگ میں بدلتے ہوئے، اسرائیل کو صاف بچا لیجانے کا، دشمن اسلام یہود و نصاری سازش کنندگان کو صاف موقع مل جاتا۔ اسرائیل کی معشیتی ناکہ بندی کا یمن کا یہ حربی وار، اپنی جہاز رانی سے ہزاروں سال قبل والے، عالمی معشیت پر، اس وقت قابض رہے، یمنی تجار کی یاد تازہ کرنے پر مجبور کرتا ہے

۔یہاں اس بات کا اظہار کرنا ضروری ہے بظاہر عرب ممالک درمیان، سب سے کمزور اور ناتواں نظر آنے والا یمن اور اسکی افواج مسلسل کئی سالوں میں حالت حرب میں مشغول و مصروف رہنے کی وجہ ہی سے، جہادی جذبات سے سرشار، دوسرے عرب ملکوں کی غیر فعال، لاکھوں تعداد افواج سے بہتر کارگآری دکھانے لائق، اپنے آپ کو ثابت کیاہے۔
ان عرب سنی شاہان میں شاہ قطر سب سے جدا، اسلام دشمن یہود و نصاری عالمی قوتوں سے، اپنے سفارتی تعلقات بحال رکھتے ہوئے بھی، توقعات سے زیادہ، ہر محاذ پر دشمن اسرائیل و امریکہ یہود و نصاری حربی قوتوں کے خلاف کھل کر انکے دشمنوں کی، یعنی مسلم مجاہدین کی مدد و نصرت کی ہے۔ چاہے وہ امریکہ کے مخالف طالبان ہوں کہ یہود کے مخالف حماس و ایران۔ اور سب سے اہم، فی زمانہ جدت پسند میڈیا، جنگ و حرب کا ایک اٹوٹ حصہ ثابت ہوتے پس منظر میں، قطری عرب میڈیا الجزیرہ کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

کاش کی مسلم ممالک، ملیشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، پاکستان، دوبئی، سعودی عرب میں سے کوئی ایک یا سب مل کر، مشترکہ ہی العربیہ ہی کے طرز، عالمی معیار کا انگریزی میڈیا ھاؤس قائم کئے، عالم اسلام کو تحفتاً ہی دے دئیے ہوتے تو آج فلسطین پر اسرائیلی ظلم و انبساط کو کھل کر جدت پسند عالم۔کے سامنے رکھنے میں آسانی ہوتی۔

1923 سکوت استنبول بعد عالمی سربراہی آختیار کرنے والے مسیحی دھڑے نے، خصوصا 1980 کے بعد، یوایس ایس آر کے ٹوٹ کر بکھر جانے کے بعد عالمی سربراہ ممالک، حقوق انسانیت و عوام پر عوامی حکمرانی والی جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار ، صاحب امریکہ نے، ان 43 سالوں میں، عرب ممالک کو قدرت کی طرف سے عطا کردہ پیٹرو دولت من و سلوی کے مفت استفادے ہی کے لئے، حرب و جنگ کے سہارے عالم پر اپنی حکمرانی قائم کرنے ہی کے لئے، اس کی راہ میں روڑا بننے لائق مسلم مجاہدین کو کچلنے کے لئے، یوایس ایس آر کے ٹوٹنے کے بعد اسلام کے نام پر معرض وجود آنے والے,

ازبگستان، آذر بائجان، تازکستان، چیچنیا اور خصوصا روس کے انخلا کے بعد، افغانستان پر قائم ہونے والی مسلم طالبانی حکومت اور عرب کھاڑی میں حربی قوت بن کر ابھرنے والے ممالک عراق لیبیا شام یمن و ایران کا قلع قیمہ کرنے کے لئے،اپنے یہاں امریکہ کے دو شان امریکہ،سمجھے جانے والے ٹون ٹاور کو، خود کی سازش کے تحت مسمار کرتے ہوئے ،عالم اسلام پر یلغار کا جو حربی منصوبہ تیار کیا تھا،

اس سے، ان چالیس سالوں میں، افغانستان عراق شام لیبیا فلسطین و یمن کے کم و بیش ایک کروڑ مسلمانوں کو شہید کرتے ہوئے، عالم پر اپنی زمام حکومت کو تقویت دینے کی ناکام کوشش تو کرلی تھی لیکن وہ یہ بھول گیا تھا علامہ اقبال کے اس شعر کے مصداق
*اسلام کی فطرت نے قدرت نے یہ لچک دی ہے*
*اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤگے*
صاحب امریکہ نے مسلم قوت کو دبانے کے بجائے، اسے ایسے ہی گر چھوڑ دیا ہوتا تو، غالباً ہم دنیوی عیش و عشرت میں لپت، اغیار کی طرح خدا بیزار زندگی گزار رہے ہوتے، لیکن بزور قوت دبانے کی امریکی حربی حکمت عملی نے، عالم کے انیک حصوں، ملکوں میں، اسلامی جہادی جذبات کو پنپنے کا نہ صرف موقع دیاتھا،بلکہ چیچنیا فلسطین شام لیبیا عراق یمن میں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں، اپنے اللہ اور اس کے دین اسلام کی سرخروئی کے لئے، اپنی جانوں کی قربانی دینے والے لاکھوں کروڑوں مجاہدین کی کھیپ تیار ہوچکی ہے اس کے لئے ہمیں مسیحی ملک صاحب امریکہ اور اس کے اسلام دشمن مسیحی یورپی ممالک اور انکے اتحادی حربی ناٹو کے شکر گزار ہونا چاہئیے۔ کہ انہوں نے عالم اسلام کو کچلنے کے بہانے، ہمیں ہمہ وقت حرب و جنگ میں مشغول رکھے، ہمیں کندن بنائے،

اب زوال استنبول پر سو سال پورے ہوتے وقت، دوبارہ خلافت عثمانیہ نشاط ثانیہ طرز، اسلامی حکومت کے قیام کے لئے، ماحول کو سازگار کیا ہے۔ حضرت مولانا سجاد تعمانی مدظلہ نائب صدر مسلم پرسنل لا بورڈ سمیت، بڑے بڑے دنیوی و اسلامی مفکر،موجودہ حالت جنگ ارض شام کو، قرب قیامت کی نشانی قرار دئیے،قرب قیامت سے ڈراتے پائے جاتے ہیں۔ لیکن اس احقر نے متعدد بار اپنے لکھے مضامین و مقالوں سے، پندرھویں صدی اختتام بعد،دوبارہ اسلامی خلافت شروع ہوتے ہوئے، کم از کم ایک ہزار سال مزید، دنیا قائم رہنے کا تفکر پیش کیا تھا اور یہ ہمارا تفکر اللہ کے رسول ﷺ کے ان اقوال کے پس منظر میں تھا کہ امت مسلمہ کی امامت جو عربوں کے کندھوں پر رکھی گئی ہے،

ان میں دنیوی محبت اتنی عود کر آئیگی کہ امامت عالم، ان سے چھن کر، صائیبین کے حوالے کی جائیگی،اور اس وقت مسلمان تعداد میں، سمندر کے جھاگ بمثل کثرت سے ہونگے اور آسمانی ایک دن کے فیصلے، دنیوی ہزار سال کے برابر جو ہوتے ہیں اور نصف یوم کی فرصت و مہلت جو دی جانی ہے وہ پانچ سو سال کے برابر ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے تو پندرھوئں صدی کے اختتام، جو 55 سال بعد 2078 میں ہورہاہے،قیامت کے قریب ہونے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ لیکن متعدد یہود و نصاری والصائیبین والی آیات نزول وقت ،ایک مرتبہ صحابی رسولﷺ،سعید خضری رض کے پوچھنے پر،یہود و نصاری کو تو ہم جانتے ہیں پر یہ صائیبین کون ہیں؟ اللہ کے رسول ﷺکا یہ فرمانا کہ وہ تم میں سے ہیں (تمہاری آل میں سے) اور دوسری مرتبہ ایسی ہی آیت کے نزول کے وقت صحابی رسولﷺ،حضرت سلمان فارسی کا صائیبین کے بارے استفسار کرنا اور سلمان فارسی سے بھی آپ ﷺ کا یہی کہنا کہ صائبین آپ میں سے ہیں کیا

درشاتا ہے؟ کیا کسی نے تحقیق بھی کی ہے کہ ایسی وہ کونسی قوم، روئے ارض پر اب بھی موجود ہے جو سعید خضری یمنی النسل اور سلمان فارسی ایرانی النسل کی مشترکہ نسل میں سے ہے۔ تو ہمیں بھارت کی ھندو قوم جو شمالی ھند والے سفید فارم ارین ایرانی النسل اور جنوب ھند گندمی رنگ والے ڈراویڈین،اہل یمن جو کئی ہزار سال سے آپس میں مل جل کر،ایک ھندو قوم کی شکل، ایک بہت بڑی طاقت کے طور مشترکہ رہتے پائے جاتے ہیں۔ جو سناتن دھرمی منو وادی حضرت نوح علیہ السلام کی قوم ہیں اور ان تک ایشور کا ویدک دین لانے والے منو(حضرت نوح علیہ السلام) کی حقانیت جاننے کے متلاشی ہیں۔ اور انکے آسمانی ویدوں میں ہزاروں سال قبل بتائےگئےرب ڈوالجلال کے فرمان مطابق، انکے درمیان آنے والے “کل کی اوتار” کے ابھی تک منتظر پائے جاتے ہیں
بھارت میں مہان مودی جی کے زمام حکومت میں جس طرح مسلم منافرت کا برملا اظہار کیاجارہا ہے یہ دراصل اس خوف کے پیش نظر یے کہ اللہ کے رسولﷺ کے فرمان و پیشین گوئی مطابق، پندرھویں صدی کے اختتام بعد، اور ان کے مذہبی گرنتھوں کے حساب سے بھی، بھارت میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔

ھندو یہ تصور کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھتے ہوئے،مسلمان اکثریت میں آجائینگے اس لئے مسلمانوں کے اکثریت قائم کرنے سے پہلے، انہیں ہر صورت وہ روکنا چاہتے ہیں، جبکہ ھندو سناتن دھرم میں ان تک ایشور کی وحدانیت کا پیغام لانے والے رشی منی “منو” کی اصل حقیقت سے وہ ناآشنا ہیں اور وہ جب اس حقیقت سے آشکار ہوجائیں گے کہ ان کے رشی منی منو یی مسلمانوں کے حضرت نوح علیہ السلام ہیں اور ان کے وید گرنتھوں میں، مستقبل میں آنے کی نشانی بتائے گئے “کل کی اوتار” تو 1400 سال قبل عرب کی وادی میں تشریف لاچکے مسلمانوں کے آخری نبی خاتم الانبیاء رحمت للعالمین محمد ﷺ ہیں

،جب اس بات کا ادراک بھارت کے سناتن دھرمی ھندؤں کو بخوبی ہوجائیگا تو ان سناتن دھرمی ھندوؤں کی اکثریت اجتماعی طور مسلمان ہوجائیگی۔ اس پر دس ایک سال قبل ہمارا لکھا اور چھپاطویل مقالہ “یہ چمن بھی گونج اٹھے گا نغمہ توحید سے” ہمارے اکثر قارئین کی نظروں سے گزرا ہوگا۔ اور متعدد مضامین میں ہم نے، سکوت خلافت عثمانیہ بعد والے سو سال اختتام پر، یعنی اب کے کچھ سالوں بعد زوال امریکہ یعنی عالم پر مسیحی زمام حکومت کے اختتام پزیر ہوتےعالم پر،اسلامی حکومتی اثرات حاوی ہونے کی بات کہی تھی اب ذرا ان تمام مختلف نکات کو جوڑ کر دیکھتے ہیں

تو، ایک طرف منو یا حضرت نوح علیہ السلام کی سناتن دھرمی ھندو قوم کی اکثریت اسلام دھرم قبول کر مسلمان ہوجاتی ہے جو دراصل صائیبین قوم ہے،دوسری طرح دنیا سمیٹنے میں مست مصروف عیش و عشرت میں لپت عرب قوم زوال پزیر ہوجاتی ہےاور زمام اقتدار عالم اسلام، ان صائبین کے ہاتھوں میں چلی آتی ہے، ویسے بھی معشیتی اعتبار عالم کی سب سے بڑی جمہوریت ، بھارت وشؤ گرو بننے کے، نہ صرف خواب بن رہا ہے بلکہ برملا اس کا اظہار بھی کررہا ہے۔اس پس منظر میں، آج فلسطین اسرائیل جنگ کی شکشت خوردہ اسرائیلی قوم، مستقبل کے آٹھ نو سو یا تیرہ چودہ سو سال بعد، آپنی قوت یکجا کئے، قبلہ اولی پر قابض ہوچکی ہوتی ہے ان کی مذہبی آسمانی کتاب تورات میں کی گئی

پیشین گوئی مطابق نعوذ باللہ قبلہ اولی؟ بیت المقدس کو شہید کر ھیکل سلیمانی قائم کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔امامت عالم اسلامی صائبین کے ہاتھوں میں جاتے پس منظر میں،اور قیامت اس وقت تک نہیں آئیگی جب تک غزوہ ھند قائم نہیں ہوگی اور کالے جھنڈے بردار مجاہدین ھند سے نکل کر شام کے صحراؤں میں نہ چلے جائیں گے، والی پیشین گوئی،کیا یہ سب کچھ حماس اسرائیل موجودہ جنگ میں حماس کے مقابلہ اسرائیل کےشکست فاش کھاتے پس منظر میں،اور امریکہ کے زوال پزیر ہوتے، نیز فلسطین دوست روس و چائینہ کے عالمی سربراہی پربراجمان ہوتے پس منظر میں، پندرھویں اسلامی صدی کے اختتام یعنی مستقبل کے 55 سالوں میں یہ سب کچھ ہونا ممکن ہے؟ اور کیا

اللہ کے رسول ﷺ کی پیشین گوئی، زوال عرب بعد صائبین کے عالم اسلام سربراہ بننے کی بات، ایک دن و بعد نصف دن کی مہلت والے ڈیڑھ ہزار سال بعد، قائم ہونے والی صائیبین کی سربراہی کی عمر، آسمانی ایک دن بقدر ایک ہزار سال تصور بھی کی جائے اور نصف یوم یعنی پانچ سو سال کی توسیع بھی شمار نہ کی جائے تو قیامت 2،500ھجری تاریخ سے قبل آنی ممکن نہیں لگتی ہے۔ باقی تمام امور اللہ رب العزت ہی کے ہاتھوں میں ہیں وہ چاہیں، بعد آدم علیہ سے دور خاتم الانبیاء تک کے لاکھوں سال طویل مدت کے مقابلہ،قیامت آنے میں مزید کئی ہزآر سال بھی لگ سکتے ہیں ان تمام علوم غیب سے اللہ ہی بہتر علم رکھتے ہیں۔

ان تمام حقائق سے پرے ایک طرف اسلام کے والی عرب ممالک کے عیاشیوں میں لپت رہنے کی داستانیں تو، دینی اقدار و اعمال کو ایک حد تک باقی رکھنے میں مشہور ہم ھند و پاک بنگلہ دیش والے مشرقی مسلمان، جس قدر شرک و بدعات میں مستغرق ہیں اور معاملات میں بالکیہ اسلامی اقدار سے دور ہیں ایسے میں اپنی اوراپنے بیوی بچوں و جائے پیدائش کے ساتھ قبلہ اولی کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے نازک کندھوں پر لئے، سابقہ پچاس سالوں سے قابض اسرائیلی افواج کے زیر نگین محصور رکھے گئے
اسرائیل میں، فلسطینی مجاہدین نے عالم کی چوتھی بڑی حربی قوت اسرائیل کے سامنے گذشتہ دو ماہ سے جنگ کرتے ہوئے،ان ہر سابقہ پچاس سالوں سے اسرائیلی افواج و قوم یہود کے کئے گئے مظالم سے پرے،ایک طرف اسرائیلی بمباری میں شہید ہوتے اٹھارہ ہزار فلسطینی بچوں عورتوں مردوں کو،اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود، چن چن کر کئی ہزار اسرائیلی افواج کو نشانہ بناتے ہوئے،انہیں جہنم واصل کرتے ہوئے، اسیران یہود کے ساتھ اسلامی اقدار واخلاق کے ساتھ پیش آتے ہوئے، یہ جو عملی اسلامی اقدار عالم کے اور مذاہب کے ماننے والوں کے سامنے پیش کئے ہیں اس کی مثال فی زمانہ ملنا مشکل ہے۔

یہی وہ صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے عملی اخلاق و کردار تھے جنہئں دیکھ کفار و مشرکین عرب جوق درجوق مسلمان ہوتے تھے۔ انشاءاللہ ان فلسطینی مجاہدین کے بہادری والے کارناموں کے ساتھ ہی ساتھ،انکے حسن اخلاق سے،آج تاریخ میں پہلی بار،اســـرائیل میں، اس وقت ہر گھر، ہوٹل اور ہر محفل میں ایک ہی موضوع سخن ہے۔ وہ ہے فلسطینی جانبازوں کا یہودی قیدیوں کے ساتھ مافوق الخیال اور ناقابل یقین حسن سلوک۔ سب حیران ہیں کہ یہ کیسی مخلوق ہے، جس نے دشمن کے قیدیوں کو اس طرح رکھا کہ خود بھوکے رہے اور انہیں ہر چیز مہیا کی۔ ان کا ایسے خیال رکھا جیسے نیک اولاد اپنے بوڑھے والدین کا خیال رکھتی ہے۔ تمام قیدیوں کو ایک جگہ رکھا گیا، جہاں وہ آپس میں گپ شپ کرتے رہے، شعر و شاعری کی محفلیں بھی سجتی رہیں۔ مکمل دوستانہ ماحول مہیا کیا گیا۔ انہیں ذرا بھی احساس ہونے نہیں دیا گیا کہ وہ دشمن کی قید میں ہیں۔ انہیں اطیمنان دلانے کیلئے اپنے قائد اعلیٰ کی ان سے ملاقات کرائی گئی۔

جس نے کہا کہ “تم غـزہ کےسب سے محفوظ مقام پر ہو۔ جہاں تمہیں کوئی گزند نہیں پہنچ سکتی ہے”۔ جب وہ رہا ہوئے اور اپنوں کے درمیان فلسطینی مسلمانوں کے ان کے ساتھ کئے حسن سلوک کی داستانیں اپنوں کو سنائیں تو کے اہل خانہ نے، فـلـسطـینی پرچم اٹھا کر، حماس جانبازوں کے حق میں نہ صرف ریلی بھی نکال کر مشرکین عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیایے اسی وجہ سے صیہـونی ریاست میں، پہلی بار ایسا ہوا۔ جسے خود ناقابل یقین قرار دیا جا رہا ہے۔ اس ریلی میں پہلی بار یہ بھی دیکھا گیا

کہ اسـرائیلی شہری اپنی ہی فوج کو مطعون قرار دے رہے تھے کہ تم ہماری حفاظت میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ فوج نے اس ریلی کو روکنے کی کوشش کی اورفلـسطـینی پرچم شرکاء سے چھین لئے۔ اگرچہ مین اسٹریم میڈیا نے اسے نہیں دکھایا پر سوشل میڈیا میں یہ مناظر سامنے آنے سے پورے عالم میں کہرام مچ گیا

حالیہ دنوں میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد مجاہدین کے متعلق ان کے تاثرات سن کر بڑی خوشی ہوئی اور اسلام کا سر فخر سے بلند ہو گیا اور اس منظر کو دیکھ کر *مشہور برطانوی اخبار سنڈے ایکسپریس کی مشہور و نامور رپورٹر محترمہ یووون ریڈلی (موجودہ نام فاطمہ ریڈلی)* جو رپورٹنگ کی غرض سے افغانستان کے سفر میں طالبان کے ہاتھوں قید ہوکر طالبان کے حسن سلوک کے باعث رہائی کے بعد عیسائیت ترک کرکے مسلمان ہو گیئں تھیں اس واقعہ کی یاد تازہ ہو گئی ۔

سابقہ سو سالہ عالم پر مسیحی حکمرانی میں 1،300 سالہ خلافت راشدہ سے خلافت عثمانیہ تک مسلم حکمرانی دوران مسلمانوں کے ظلم و ستم کی چھوٹی خبریں پھیلا کر،مسلمانوں کو جو بدنام کیا گیا تھا اور اسرائیلی عالمی میڈیا معرفت فلسطینی مسلمانوں کو بدکردار ظالم دہشت گرد کے طور پیش کیا جاتا رہا تھا اس ایک دو مہینے کی فلسطین اسرائیل جنگ دوران، فریقین کے درمیان اسیران قیدیوں کی ادلا بدلی بعد، دنیا نے جہاں فلسطینی قیدیوں خصوصا بچوں اور نساء کے ساتھ یہودی ظلم و انبساط کی داستانیں سنیں، وہیں

پر یہودی نساء قیدیوں کے ساتھ فلسطینی جانبازوں کے حسن سلوک کے چشم و دید حقائق نے، عالم کے کفار و مشرکین کے دل و دماغ میں سابقہ سو سال سے بٹھائے، مسلمانوں کے تئیں منفی سوچ کو یکسر مسترد کرنے پر مجبور کردیا۔ اس اسرائیل فلسطین جنگ کی جو خبریں سائبر میڈیا معرفت تمام تر ویڈیو ثبوتوں کے ساتھ جگ ظاہر ہورہے ہیں اس سے یہ بات اظہر من الشمس کی طرح جگ ظاہر ہو چکی ہے کہ عالم کی چوتھی بڑی حربی قوت اسرائیلی افواج، ھجڑون پر مشتمل فوج ہے جو صرف بمبار طیاروں سے فلسطینی بستیوں ہاسپٹل و اسکول و پناہ گزین کیمپوں پر اندھا دھند بمباری کر، ننھے معصوم بچوں اور کثرت نساء کو صرف شہید کرنا جانتی ہے اور اپنے جیسے فلسطینی مجاہدین سے دو دو ہاتھ کرنے کی سکت سے بھی محروم، دوران جنگ دشمن کے نرغے میں آنے پر، بہادری سے لڑنے کے بجائے، ہتھیار پھینک زندگی کی بھیک مانگتی پائی جاتی ہے۔ اس دو ماہی جنگ میں، فلسطینی مجاہدوں نے، عالمی معیار کے سب بہترین سمجھے جانے والے
اسرائیلی مارکوا فوجی ٹینکوں کی تین چوتھائی تعداد تقریباً 400 مارخور ٹینکوں کو تباہ کرتے ہوئے، کئی سو سالہ حربی تاریخ کا ریکارڈ اپنے نام کیا ہے۔ یقینا” یہود و فلسطین کے مابین سابقہ دو ماہ سے لڑی جانے والی یہ جنگ انشاءاللہ مستقبل کے چند دنوں کے اندر، عالمی کی چوتھی بڑی حربی قوت اسرائیل کو خود انکے یہاں محصور رکھے گئے فلسطینیوں کے ہاتھوں شکست فاش ہوتے عنقریب نہ صرف دنیا دیکھے گی،

بلکہ خطے سے فلسطین کا وجود ختم کرنے کی کوشش کرنے والے یہود کے وجود و سالمیت ہی کو خطرہ ہوتے، دنیا دیکھے گی انشاءاللہ۔ اس جنگ کے نتائج کچھ بھی ہوں، عالم کی تمام تر دولت کے نصف سے زائد حصہ پر لاشرکت غیرے قابض عالم کی چوتھی حربی طاقت اسرائیل پر فلسطین کی اخلاقی جیت کو ہم نہ صرف تسلیم کرچکے ہیں۔بلکہ کچھ دنوں بعد اسرائیل پر فلسطین کی جیت کے دعوے جگ ظاہر ہوجائیں گے تو تب انکے حسن اخلاق کے قصے دنیا قبول کرتے ہوئے، ضرور اسلام قبول کرنے مجبور ہوجائیگی۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں