168

یہ ملک کی بقاء کا سوال ہے!

یہ ملک کی بقاء کا سوال ہے!

الیکشن کی گہماگہمی میں سارہ ہی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے راگ الاپ رہی ہیں ،ہر آزمائی سیاسی جماعت وہی پرانے دعوئے وہی ہرانے وعدے دہرائے جارہی ہے ،لیکن کسی کے پاس عوامی مسائل کے تدارک کا کوئی پلان ہے نہ ہی کسی نے کوئی قابل عمل منشور پیش کیاہے ، پیپلز پارٹی قیادت ایک دس نکاتی منشور ہاتھ میں لہراتے ہوئے عوام کی زندگی بدلنے کے دعوئے کررہی ہے ، لیکن یہ سارے ہی دعوئے آزمائے ہوئے ہیں ،یہ سارے ہی وعدے دیکھے بھالے ہیں، آزمائی سیاسی قیادت کے پاس ماسوائے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں اور ایک دوسرے کومود الزام ٹہرانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ،

اس انتخابات کے بعد ایسا ہی لگ رہا ہے کہ کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔اگر دیکھا جائے تو ہماری سیاسی جماعتوں کی تر جیحات میں عوام ہیں نہ ہی عوامی مسائل کا تدارک دکھائی دیتا ہے ،کیا کوئی ایک ایسی سیاسی جماعت ہے،جو کہ مہنگائی بے روز گاری کے خاتمے اور تعلیم و صحت کی دستیابی پر اپنی انتخابی مہم چلارہی ہے ؟ یہاں ہر کوئی طاقتور حلقوں کی خشنودی کے ساتھ حصول اقتدار کی دوڑ میں شریک کار ہے ، یہ سارے ہی زبانی کلامی طاقت کا سر چشمہ عوام کو قرار ضرور دیتے رہتے ہیں ،مگر عوام کا لاڈلا بننے کے بجائے طاقتور حلقوں کا لاڈلہ بننے کو تر جیح دیتے ہیں ، کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ اُن کا لاڈلہ بن کر ہی اقتدار میں آیا جاسکتا ہے، اقتدار میں زیادہ دیر تک رہا جاسکتا ہے۔
ہر دور میں اہل سیاست کو عوام کی رضا سے زیادہ طاقتور حلقوں کی خشنودی زیادہ عزیز رہی ہے ، اس بار بھی وہی پرانی رویت دہرائی جارہی ہے ، ایک دوسرے پر بازی لے جانے کیلئے ہر جائزو ناجائز حربے آزمائے جارہے ہیں ، ایک دوسرے پر الزامات لائے جارہے ہیں ،ایک دوسرے کوخوب لتاڑا جارہا ہے،ایک دوسرے سے بڑھ کر خود کو پیش کیا جارہا ہے ، جبکہ یہ سارے ہی سب کے آزمائے ہوئے ہیں ، اس کے باوجود ان میں سے ہی ایک کو لایا اور ایک کو نکلا جارہا ہے ،یہ سب کچھ غلط ہو رہا ہے

اور یہ سب کو ہی معلوم ہے کہ یہ سب دھاندلی ہے، لیکن اسکے باوجود الیکشن کا ڈرامہ سجا یا جارہا ہے ،عوام کا پیسہ ضائع کیا جارہا ہے ، ایسی جمہوریت سے کیا ملے گااور ایسے الیکشن سے کو نسا استحکام آئے گا، بلکہ مزید انتشار ہی بڑھتا دکھائی دیے رہا ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بر وقت انتخابات کاانعقاد وقت کی اہم ضرورت ہیں اورآئین بھی بروقت انتخاباتکے انعقاد پر ہی زور دیتا ہے، لیکن اس کے ساتھ آزادانہ صاف وشفاف انتخابات کی بھی بات کرتا ہے، اگر انتخابات بر وقت نہ ہوں تو کہا جاتا ہے کہ آئین شکنی ہو رہی ہے، لیکن اگر الیکشن کے نام پر سلیکشن کی جائے گی تو ایسے الیکشن کو کیا کہا جائے گا ؟

اگر محض دکھائوئے کیلئے خانہ پْری یا رسم ادا کرنے کی ہی بات ہے تو پھر ایسے الیکشن ضرور کروا لیے جائیں، ورنہ جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ کیا جارہا ہے ،وہ آئین وجموریت کے نام پر عوام کو د ھوکہ دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔یہ بات طے ہے کہ عوام کو ایک بار پھر دھوکہ ہی دیا جارہا ہے ، عوام کو ایک بار پھر بہلایا جارہا ہے ،لیکن اس بہکائوئے اور بہلائوئے کو عوام اپنے ووٹ کے ذریعے بدل سکتے ہیں ، اگراس انتخابی عمل میں عوام اپنی بھر پور شرکت کے ساتھ اپنے ووٹ کا نہ صرف درست استعمال کر لیں

،بلکہ اپنے ووٹ کی حفاظت بھی یقینی بنا لیں تو نہ صرف طے شدہ نتائج بدلے جاسکتے ہیں ،بلکہ اپنے فیصلے منوائے بھی جاسکتے ہیں ، اس مرحلے پر ہی عوام کو سوچنا ہو گا اور اس سوچ کو عملی جامہ پہنانا ہو گا،کیو نکہ اس بار مسئلہ گزشتہ کی نسبت زیادہ گمبھیر ہے ، یہ محض اقتدار کی جنگ نہیں رہی ہے ،بلکہ ملک کی بقاء کا سوال ہے اور ملک کی بقاء کیلئے عوام کو اپنافیصلہ نہ صرف خود ہی کرنا ہوگا ،

بلکہ اپنا فیصلہ منوانا بھی ہو گا ۔یہ اس وقت کے بدلتے حالات کا تقا ضا ہے کہ قومی اداروں کی لیڈر شپ اپنی اناؤں کو چھوڑیں اور ملک کی بقاء اور عوام کی بہتری کے لیے سر جوڑیں، موجودہ سیاسی نظام میں کوئی جان اور کوئی توانائی نہیں رہی ہے، یہ صرف چند خاندانوں کو ہی تخفّظ دیتا ہے اوران آزمائے کو ہی بار بار اقتدار میں لاتا ہے، ا س نظام کو بدلنا ہو گا ،لیکن اس سے پہلے ایک بار عوام کو آزادانہ حق رائے دہی دینا ہو گا ، ایک منصفانہ شفاف الیکشن کرانا ہو گا اور اس شفاف الیکشن کے ذریعے جاننا ہو گا کہ عوام کیا چاہتے ہیں ، کیو نکہ عوام کی چاہت میں ہی ملک کی بقاء اور ملک کا استحکام پو شیدہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں