عوام کی رائے کا احترام کرنا ہوگا!
ملک بھر میںانتخابی میدان سج گیا ہے اور عوام نے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کر نا ہے کہ اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا ،اس انتخابی میدان میں مقابلہ تیر، شیر اور آزاد اُمیدواروںکے درمیان ہورہا ہے،اب دیکھنا ہے کہ تیر سے شیر کا شکار ہوتاہے یا شیر سب کو ہی ہڑپ کر جاتا ہے ،
جبکہ محافظوںنے شیرکے شکار پر پابندی بھی لگا رکھی ہے ، اگر تیر اور شیر کے مقابلے میں آزاداُمیدواروں نے کوئی غیرمعمولی کامیابی حاصل کرلی، جو کہ موجودہ حالات میں بظاہر مشکل نظرآرہی ہے تو انتخابات کے بعد کا سیاسی کھیل انتہائی پیچیدہ ہوجائے گا۔اگر دیکھا جائے تو انتخابی میدان میں مسلم لیگ( ن ) تن تنہا ہی دکھائی دیے رہی ہے ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے آزاد اُمیدوار اپنے تائیں بندھے ہاتھوں کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں ،مگر ان کے راستے میں جتنی روکاٹیں کھڑی کی جارہی ہیں ،
انہیں عبور کرتے ہوئے کا میابی حاصل کر نا اتنا آسان نہیں ہے ،یہ کیسا مقابلہ کرایا جارہا ہے کہ ایک کیلئے کھلے ہاتھوں کے ساتھ کھولا میدان ہے تو دوسروںکیلئے بندھے ہاتھوں کے ساتھ میدان بھی محدود کر دیا گیا ہے، اس کے بعد کہا جارہا ہے کہ جیت سکتے ہوں تو جیت کر دکھائو ،بندھے ہاتھوں کے ساتھ شیر کا شکار کر کے دکھائو تو مانیں گے۔
یہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہورہا ہے ، اس سے پہلے بھی ایسا ہی کچھ ہوتا رہا ہے ، لیکن یہ سب کچھ کرانے والوں نے اپنے ناکام تجر بوں سے کچھ سیکھا ہے نہ ہی اُن کے آلہ کار ان ناکام تجربات سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں ، ایک بار پھر وہی ناکام تجربہ دہرایا جارہا ہے ، اس کا سد باب عوام ہی کر سکتے ہیں ، عوام کو چاہئے کہ اپنے حق رائے دہی کا درست استعمال کریں ، اپنے ووٹ کے استعمال کو قومی فریضہ سمجھیں اور اپنے ووٹ کی طاقت کا بھرپور استعمال کر تے ہوئے تمام جمہوریت مخالف قوتوں کے ہتھکنڈوں کو ناکام بنا دیں،
ووٹ دیتے وقت اپنی ذات کے بجائے اپنی نسلوں کے مستقبل اور پاکستان کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھیں،جو لوگ آپ کا ووٹ خریدنا چاہتے ہیں اور آپ کو پیسوں کا لالچ دے رہے ہیں ذرا خود سوچیں کہ وہ ووٹ خرید کر کیوں جیتنا چاہتے ہیں؟ اگر وہ عوام اور ملک کے لیے سیاست کررہے ہیں تو انہیں ووٹ خریدنے کی ضرورت کیوں کر پیش آ رہی ہے؟عوام باشعور ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ ووٹ کے خرید ار ہی الیکشن میں کامیاب ہو کر اس سے بھی بھاری قیمت وصول کریں گے اور اس کا نقصان ملک اور آپ عوام کو ہی پہنچائیں گے
،اس لئے کسی بھی حال میں اپنے ووٹ کا سودا نہیں کرناہے، اگر کوئی غریب بہت ہی مجبور ہو جاتاہے توپیسے لے کر بھی اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈال سکتا ہے،لیکن ووٹ ڈالنے کیلئے باہر تو نکلنا ہو گا ، اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسل کیلئے ایک دن تو دینا ہو گا ، ووٹ کا درست استعمال فرض سمجھ کر ہی کرنا ہو گا ، اگر آج بھی لوگ گھر بیٹھے رہیں گے اور زبانی کلامی کر باتیں کرتے رہیں گے
تواس ملک میں کچھ بدلے گا نہ ہی کوئی تبد یلی لائی جاسکے گی ،بلکہ ایک بار پھر عوام پر بند کمروں کے ہی فیصلے مسلط کر دیئے جائیں گے ۔یہ بات یاد رکھیں کہ کوئی بھی انسان غلطی سے مبرا نہیں ہے، ہر انسان غلطی کا پتلا ہے اور اپنی غلطی سے ہی سبق سیکھتا ہے ،لیکن یہاں کوئی اپنی غلطی سے سیکھ رہا ہے نہ ہی اپنی پرانی روش چھوڑ رہا ہے ، یہ سب کچھ ایسے ہی کب تک چلتا رہے گا ، یہ اب زیادہ دیر تک چلنے والا ہے نہ ہی اسے عواممزید برداشت کریں گے ، اس آزمائے رویئے سے عوام تنگ آچکے ہیں
اور اس سے چھٹکارہ چاہتے ہیں ، ایک عام انتخابی عمل کے ذریعے عوام کو موقع مل رہا ہے کہ اپنے ووٹ کے ذریعے فیصلہ کریں کہ وہ کسے اقتدار میں لانا چاہتے ہیں اور کس سے چھٹکارہ حاصل کر نا چاہتے ہیں ،لیکن اس کیلئے آزادانہ منصفانہ انتخاب کا موقع دینا جہاںانتہائی ضروری ہے ، وہیں عوام کی رائے کا احترام کر نا بھی اتناہی ضروری ہے۔اس مقصد کیلئے نگران حکومت سے لے کر الیکشن کمیشن تک سارے ہی دعوئیدار ہیں کہ ایک آزادانہ منصفانہ انتخابات کرائے جارہے ہیں ، لیکن یہ سب ہی دیکھ رہے ہیں
کہ یہ کتنے آزادانہ منصفانہ ہو رہے ہیں ، اس کے باوجود عوام اپنے تائیں، اپنی رائے دینے میں کوشاں دکھائی دیے رہے ہیں ، یہ سب کیلئے ہی امتحان کا دن ہے اور اِس امتحان کا سارے ہی سامنا کر رہے ہیں،لیکن اس میں حصول اقتدار پہلی منزل نہیں ہونی چاہئے،بلکہ پہلی ترجیح ملک کا استحکام اور ملک کی سلامتی ہو نی چاہئے ،جو کہ عوام کی رائے کے احترام سے ہی آئے گی، اگر عوام کی رائے کا احترام کیا جائے گا تو ہی عوام مطمئن ہوں گے ، عوام مطمیٔن ہوں گے تو ہی ملک میں استحکام بھی آئے گا ۔