یہاںعوام کیلئے کوئی رلیف نہیں !
ملک میں عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ شروع ہوچکاہے، ایک طرف حکومت سازی کیلئے جوڑ توڑ اپنے زوروں پرہے تو دوسری جانب نگران حکومت عوام مخالف فیصلے کیئے جارہی ہے ، نگران حکومت نے جاتے جاتے ایک بار پھر بجلی ،گیس ، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے ،اس حیران کن اضافے نے بڑے پیمانے پر عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جو کہ پہلے ہی انتہائی معاشی بد حالی کا شکار ہیں۔
پا کستانی عوام انتہائی معاشی بد حالی کا شکار ہیںاور حکومت بوجھ کم کر نے کے بجائے مزید بڑھائے چلی جارہی ہے ، عوام کی قسمت میں بوجھ در بوجھ اُٹھانا ہی لکھ دیا گیا ہے ، عوام کو کہیں کوئی رلیف نام کی کوئی چیز دکھائی ہی نہیں دیے رہی ہے ، ہر حکومت عوام کو رلیف دینے کے وعدے اور دعوئے بہت کرتی ہے ،مگر عملی طور پر سارے ہی دعوئے دھر دھرے رہ جاتے ہیں ،ہرحکومت مہنگائی بڑھاتی ہے
تو کہا جاتا ہے کہ ٹیکس بڑھنے کا اثر عام لوگوں پر نہیں پڑے گا، جب کہ اس کا سارا اثر ہمیشہ ہی عام لوگوں پر پڑتا ہے اور خواص محفوظ رہتے ہیں۔یہ خاص لوگ کون ہیں کہ جن پر مہنگائی کا کوئی اثر ہوتا ہے نہ ہی کسی اضافی ٹیکس سے متا ثر ہوتے ہیں ،یہ اس ملک کی اشرافیہ ہے ،اس کا بوجھ بھی عام عوام ہی اُٹھا رہے ہیں اور یہ لوگ عیش کررہے ہیں ،انہیں کوئی پو چھنے والا ہے نہ ہی ان پر کوئی ہاتھ ڈالنے والا ہے
،ملک میں ایک مخصوص طبقہ عیش کررہا ہے اور باقی بے موت مررہے ہیں،ایک زمانہ تھا کہ ملک میں بھوک اور غربت سے تنگ آکر کوئی خود کشی کرتا تھا تو میڈیا آسمان سر پر اْٹھا لیتا تھا، حکومت بھی وضاحتیں دینے پر مجبور ہو جاتی تھی، اپوزیشن بیانات داغتی تھی کہ حکومتی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لوگ خود کشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں، اب ایسے واقعات بھی معمول کی شکل اختیارکر گئے ہیں، حکومت کے کانوں پر جوں رینگتی ہے اور نہ میڈیا ہی اہمیت دیتا ہے،یہ ایک المیہ ہے، بے حسی ہے۔
اگر دیکھاجائے توزندہ معاشروں میں ایسا نہیں ہوتاہے ،لیکن آج ہم اپنے اردگرد سے اتنے بے خبر ہو چکے ہیں کہ ہمیں خبر ہی نہیں ہوتی کہ ہمارے آس پاس کیا ہورہا ہے ،ہمارے محلے میں، ہمارے ساتھ والے گھر میں کتنے دِنوں کا فاقہ ہے اور ہمسایہ کس بد حالی سے گزر رہا ہے ، یہ نگراں حکومت اور اْس کے ادارے تو عوام کی حالت سے ویسے ہی لاتعلق ہو چکے ہیں ،انھیں بیرونی ایجنڈے کے تحت صرف اپنی عوام کی جیبوں سے روپیہ نکلوانا آتا ہے اور وہ عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑنے میں لگے ہوئے ہیں،
اور سڑکوں پرحتجاج کررہی ہے ،لیکن نگران حکومت پر کوئی اثر ہورہا ہے نہ ہی الیکشن کمیشن ذمہ داری اُٹھا رہا ہے ، ہر کوئی ایک دوسرے کی تعریفوں کے پل باندھے جارہا ہے ، کیونکہ یہ سب اندر سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور مل کر ہی سب کچھ کررہے ہیں ، انہیں دیکھ کرایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی کو جوابدہ ہی نہیں ہیں ۔
اس ملک کی اشرافیہ ہر شعبے میں حکومتی نمائندوں کی ملی بھگت سے بھرپور فائدہ اٹھا کر عیاشی کررہی ہے، جبکہ ان کی عیاشیوں کا بوجھ عوام اٹھا رہے ہیں، اب آئی ایم ایف کی سخت شرائط، مہنگی بجلی ، گیس اور پٹرول کی وجہ سے مجموعی مہنگائی میں ہوشربا اضافے نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے، لیکن ملک کی اشرافیہ کو عوام کا کوئی احساس ہی نہیں ہے کہ جن عوام پر بوجھ ڈال کر وہ برسوں سے عیاشیاں کرتے چلے آئے ہیں، اب ان کا کچھ بوجھ ہی بانٹ لیا جائے، اگر ایسا ہی رہا،
اشرافیہ اور حکمرانوں نے اپنی روش نہ بدلی تو عوام سیاسی جماعتوں کے کہنے پر تو اس طرح سڑکوں پر نہیں نکلتے، لیکن اس مہنگائی، اشرافیہ اور حکمرانوں کی بے حسی اور عیاشیوں کے خلاف ضرور سڑکوں پر نکل کھڑے ہوں گے اور کوئی جیل ان کو اندر نہیں رکھ پائے گی،عوام پر ہی سارا بوجھ ڈال کراب اشرافیہ اور حکمران مزید عیاشیاں نہیں کر سکتے ہیں،اب فوری اصلاح کرنا ضروری ہو چکا ہے، ورنہ آگے تباہی ہی تباہی ہو گی۔