72

دیر آید درست آید

دیر آید درست آید

نقاش نائطی
۔ +966562677707

جمیعت العلماء پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمن مدظلہ جو تمام تر اخلاقی اقدار کے خلاف، سابقہ چالیس لمبے سال تک، اسلامی مملکت پاکستان کے عوامی ریسورسز کو باری باری لوٹنے والے، بومبینو سینما کے ملازمت نیز چھوٹے موٹے تاجر سے، اربوں کھربوں کی جائیداد کے مالک بننے والے،زرداران و شرفاء سےملکر، محافظان قوم وطن انتظامیہ سے گٹھ جوڑ کئے،عوامی منتخب عمران حکومت کو پچھاڑ انہیں پابند سلاسل کئے،زمام حکومت سنبھالتے ہوئے، کم و بیش تین سال اسلامی ملک کی معشیت و ملکی وقار کو مجروح کرنے کا سبب بنتے ہوئے، حکومتی من و سلوی سے خوب مستفید ہونے والے، اور اپنے دور اقتدار میں، و بعد انہی کے آلہ کار کاکڑ نگران حکومت میں، اشرافیہ ملک و محافظان وطن کے ساتھ گٹھ جوڑ کئے، اسلامی ملک کے مسلم عوام پر،جو ظلم و ستم ڈھائے گئے تھے،

اور باحجاب مسلم نساء کے گھروں میں گھس کر، چادر و چاردیواری نیز حجاب کے تقدس کو پامال کیا گیا تھا،کیا اب اس 2024 انتخاب میں اپنی بری شکشت فاش دیکھنے کے بعد، حقیقتا” احساس ہوئے یا، انہیں احساس ہونے کا ناٹک رچائے،انہی کے گٹھ جوڑ، انکے تمام تر ظلم و ستم سہے، بیسیوں جھوٹے کیسز میں پھنسائے،جیل کی کال کوٹھری میں بند، حکیم و قائد ملت کے، جیل میں رہتے، عوامی انتخاب جیتتے تناظر میں، پھر ایک مرتبہ حکومتی من و سلوی سے مستفید ہونے، اپنا چولا و پالا بدلے، اظہار حق گوئی کرتے پس منظر میں،انکے سابقہ گٹھ جوڑ تین سالہ حکومتی ظلم و ستم،جو عمران خان اور اسکے ہمایتی پاکستانی عوام پر ڈھائے گئے ہیں، ان مظلومین کی دادرسی کے بغیر، کیا معاف ہوجائیں گے؟
ثانیاً ان پڑھ جاہل عوام کجا، دینی علوم، اعلی تعلیم یافتہ ،داعیان ملک و وطن کےنگران اعلی کے، واقعتاً احساس جرم و شرمندگی بعد بھی، کیا انکے ساتھ و ہمراہی میں، عوام و خواص پر، خصوصا انکے حذب مخالف پر، کئے گئے ظلم و ستم حتی کے،انہی کے گٹھ جوڑ حکومتی انتظامیہ کے ہاتھوں ہوئے بیسیوں قتل و غارت گیری سے بھی، مظلومین کی داد رسی کےبغیر، انکے فقط احساس ندامت سے، انکے تمام گناہ کیا دھل جائیں گے؟ ثالثا” حضرت مولانا کے، 25 کروڑ عوامی ملکی اسلامی جماعت کے سربراہ رہتے، عالم میں اتنے اونچے مقام پر فائز رہتے، انکے غلط لوگوں کے ساتھ مل کر عوام پر کئے گئے ظلم و انبساط سے، علماء اور اسلام کی شبیہ جو عالم می بدنام ہوئی ہے، فقط انکے احساس ندامت اظہار، پھر اقتدار حصول کی انی کوشش پس منظر میں، انکا احساس ندامت، مداوا ظلم و جبر بن پائے گا؟
یہ سب جانتے بوجھتے اگر برصغیر ھند و پاک کے معتبر و مشہور عالم دین حضرت مولانا سید سلیمان حسینی ندوی مدظلہ،حضرت مولانا فضل الرحمان مدظہ کو انکی ندامت ہر دودھ کا دھلا پاک و صاف سمجھتےہیں تو یہ وطیرہ ہم دنیا دار مسلمانوں کے بگاڑ کا موجب بن سکتا ہے کہ حقوق اللہ کی کم و بیشی سے پرے ،حقوق العباد زمرے والے ہزار ظلم و انبساط بعد بھی،فقط احساس ندامت اظہار کرتے ہوئے، اپنے اسی ڈگر پر قائم رہنا گویا جائز یا صحیح ٹھہرایا جانے لگے گا ومالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں