سیاسی اتحاد نا گزیر ہے ! 57

سیاسی اتحاد نا گزیر ہے !

سیاسی اتحاد نا گزیر ہے !

ملک میں انتخابات ہو گئے ،اب حکومت سازی کامر حلہ ہے ،مسلم لیگ( ن)اور پیپلز پارٹی میں حکومت سازی کیلئے اتفاق رائے سامنے آچکا ہے ،مگر وفاقی وزارتوں کے معاملے میں ابھی تک صورتحال بالکل واضح نہیں ہورہی ہے ، چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر کہا ہے کہ مرکز میں مسلم لیگ( ن)کے وزیر اعظم کو ووٹ تو دیں گے ، مگرمر کز میں وزارتیں نہیں لیں گے ۔
اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ( ن)اور پیپلز پارٹی قیادت دونوں ہی اپنی حکو مت بنانا چا ہتے ہیں ، مگر انتخابات میں واضح اکثریت نہ ملنے کے باعث ایک دوسرے کا ساتھ مجبوری میں دیے رہے ہیں ، میاں نواز شریف جو لندن سے ہی چوتھی بار وزیر اعظم بننے کیلئے آئے تھے ،اب پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں وزیراعظم نہیں بننا چاہتے ہیں، اس لیے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور برادر خورد کو آگے کردیاہے،

اس طرح دیکھا جائے تو میاں شہباز شریف کی ایک بار پھر لاٹری نکل آئی ہے،بلاول بھی وزارت عظمیٰ کے ہی امیدوار تھے ،لیکن اس لیے پیچھے ہٹ گئے ہیں کہ ان کے ابا صدر بننے کی ضد کررہے ہیں،جبکہ مقتدرہ دونوں بڑے عہدے ایک ہی خاندان کو نہیں دینا چاہتے ہیں،ویسے انہوں نے کراچی میںپیپلز پارٹی کی محبت میں جو کچھ بھی کیا ہے، ان کے لیے مناسب تھا کہ صدر اور وزیراعظم باپ بیٹے کو ہی بنادیتے اور پنجاب شریف خاندان کے حوالے کردیتے،تاہم ابھی تک یہ سارا کھیل کاغذوں پر ہی ہے،

ساجھے کی ہنڈیاں بیچ چوراہے پر پھوٹ بھی سکتی ہے۔یہ کتنی عجب بات ہے کہ ماضی میں مولانا فضل الرحمن اس کھیل کے اہم شراکت دار رہے ہیں، لیکن اب کی بار انہیں اس کھیل سے ہی نکال دیا گیا ہے، میاں نواز شریف نے ان سے صدارت کا وعدہ کررکھا تھا، یہ وعدہ بھی بھلا دیا گیا ہے، میاں نواز شریف سے کیا گلہ کیا جائے، وہ خود بھی اس کھیل سے آئوٹ ہوچکے ہیںاورمولانا فضل الرحمن لنگرلنگوٹ کس کے میدان میں آنے کے لیے پر تول رہے ہیں، انہوں نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو بھی مشورہ دیا ہے

کہ وہ ان کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھیں، لیکن میاں نوزشریف اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے تو لندن سے نہیں آئے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان کی تاجپوشی نہیں ہوسکی ہے، اس میں سارا قصور مقتدر حلقوں کا ہے، جو کہ انہیں تمام تر دھاندلی کے باوجود تین چوتھائی اکثریت دلانے میں ناکام رہے اور انہیں اب صرف پنجاب میں مریم نوازکی وزارت عالیہ پر ہی گزارا کرنا پڑ رہا ہے۔یہ ممکن ہے اس صورت حال سے دلبرداشتہ ہو کر میاں نواز شریف واپس لندن ہی چلے جائیں، لیکن وہ اپوزیشن میں ہرگز نہیں بیٹھیں گے

،جبکہ مولانا فضل الرحمن کو پی ٹی آئی کے ساتھ ہی گزارا کرنا پڑے گا، یہ بھی سنا جارہاہے کہ حضرت مولانا کے دل میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ( ن) کی بے وفائی کے بعد پی ٹی آئی کی محبت بڑی ہی شدت سے جاگ اٹھی ہے اور فریقین میں نام و پیام کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے، پس پردہ معاملات طے ہو رہے ہیں ، ایک ساتھ چلنے کا روڈ میپ تیار کیا جارہا ہے ،تاہم اصل کھیل تو اس وقت ہی شروع ہوگا ،جب کہ قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس ہوگا ، اس وقت ہی پتہ چلے گا کہ کون کہاں پر کھڑا ہے اور کس کے ساتھ کھڑا ہے ؟
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ایک مرتبہ پھر کر تب دکھانے والے اپنے کرتب دکھائیں گے اور پی ٹی آئی والے اپنے آزاد ارکان ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے،یہ آزاد ارکان بنائے اور لائے ہی اس لیے گئے ہیں کہ حالات بدلنے پر اپنے سکرپٹ کے مطابق انہیں ڈھلا جاسکے ، اس سچ پر سے پردے آج نہیں تو کل اْٹھ ہی جائیں گے، یہ بدگمانی کے بادل بالآخر چھٹ ہی جائیں گے، تاہم اِس وقت ضرورت اس بات کی ہے

کہ تمام سیاستدان ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریںاور ریاست کیلئے سیاسی اتحاد قائم کر یں ،مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے لئے مذاکرات کر رہی ہے، پی ٹی آئی بھی مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ہاتھ سے ہاتھ ملا رہی ہے، اس سلسلے کو مزید آگے بڑھنا چاہیے، سیاست کے میدان کی دوستی اور دشمنی تو موقع اور مناسبت کی ہی محتاج ہوتی ہے، اس ریاست کو مستحکم کرنے کے لئے اہل ِ سیاست کو اکٹھے ہوناہی پڑے گااور تمام اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہی پڑے گا، بصورت دیگر حالات بے قابو ہو جائیں گے اور سارے ہی سٹیک ہو لڈر خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں