جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے !
انتخابات سے قبل ہی ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا تھاکہ جس سے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی ،سیانے کہتے ہیں کہ جو بیج بوئیں گے، وہی فصل کاٹیں گے،اس انتخابات میں اپنے مخالفین کی مشکیں باندھ کر جب مطلوبہ ہدف حاصل کر ہی لیا گیا تھا تو پھر آذاد جیتنے والوں کو کچھ تو آذادی دے دینی چاہیے تھی، تاکہ معاملات سڑکوں پر آنے کی بجائے ایوانوں میں زیر بحث لائے جاتے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا
،اُلٹا انہیںمزید ڈرایا جا رہا ہے کہ خبردار آواز بھی نہ نکلنے پائے، ورنہ اس سے بھی بُرا ہو گا، اگر دھاندلی کے بارے میں ایوانوں کے اندر احتجاج یا گفتگو ہو جاتی تو کونسی قیامت آجانی تھی ،لیکن بے جا ظلم و جبر سے انتشار کی جو بنیاد رکھ دی گئی ہے، اس کے بڑے ہی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ بات جتنا مرضی چھپانے کی کوشش کی جائے اور عوام کو بہلانے کی کو شش کی جائے کہ عوامی مینڈیٹ چوری نہیں ہوا ہے ، عوام ما نے والے ہیں نہ ہی خا موشی سے بیٹھنے والے ہیں ، اس لیے بڑی دھندلی چھپانے کیلئے چھوٹی دھاندلی کو سامنے لانا ہی پڑے گا ، آٹھ فر وری کے کچھ فیصلوں کو نوں فروری کے فیصلوں سے ملانا ہی پڑے گا ، اس کے بغیر جان چھوٹے گی نہ ہی نئی حکومت آرام سے آگے چلے گی ، اگر اپنی مر ضی سے حکومت بنانی اور چلانی ہے تو اس پر منڈلاتے دھاندلی کے کچھ سائیوں کو بھی ہٹانا ہو گا۔
اس مرتبہ حکمرانی کے سنگھاسن پر بیٹھنے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے مینڈیٹ پر شکوک و شبہات کے گہرے سائے منڈلا رہے ہیں، ا س نظام پر ہی ماضی میں سلیکٹڈ کی تہمت لگتی رہی ہے ،جبکہ اس بار مخالف مسترد کردہ کا الزام لارہے ہیں، یہ عوامی حمایت کے بغیر قائم زدہ حکومت جتنا مرضی اپنی مضبو طی کا دعویٰ کرے ، لیکن گڈگورننس اور عوام کو اپنی پالیسیوں سے ریلیف دیئے بغیر ایک ایک دن بڑی ہی مشکل سے گزار پائے گی، اس حکو مت کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے الزام تعاقب کرتا ہی رہے گا
کہ ہمارا مینڈیٹ چرا کے انہیں لایا گیا ہے، اس الزام کو رد کرنے کا بہترین طریقہ ایک ہی ہوگا کہ اپنی کارکردگی سے جواب دیا جائے، اب خالی خولی دعوؤں اور بڑھکوں سے بات بنے والی ہے نہ ہی حکومت زیادہ دیر چلنے والی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے طور پر مرکز اور صوبوں میں حکومتیں مضبوط بنیادوں پر ہی قائم کی جارہی ہے، مرکز میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے اتحاد سے مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں ایک واضح اکثریت نظر آئے گی اس طرح پنجاب میں مسلم لیگ( ن )کی ایک مضبوط حکومت قائم ہو چکی ہے، سندھ میں پیپلزپارٹی بلا شرکتِ غیرے حکومت کرے گی، جبکہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے حامیوں کی حکمرانی قائم ہونے جا رہی ہے، اس طرح بلوچستان میں بھی ایک مضبوط حکومت کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں
، لیکن عوام کو کیسے مطمئن کیا جائے گا؟ اس کے لئے ان حکومتوں نے کیا لائحہ عمل بنایا ہے اور اس حوالے سے کوئی ایجنڈا ترتیب دیا گیاہے، اب عوام دشمن فیصلوں کی رتی بھر گنجائش نہیںہے ،اگر عوام کومعاشی حوالے سے فوری ریلیف نہ دیا گیا تو وہ غصہ جو پہلے ہی مخصوص وجوہات کی بناء پر بڑھتا جارہاہے، عوام میں مزید اضطراب پیدا کرے گا۔یہ کتنی عجب بات ہے کہ اہل سیاست نے اپنے ماضی سے کچھ نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے ، یہ اپنے ساتھ ہو نے والے مظالم کو بھول کر اپنے مخالفین کے ساتھ وہی ظلم و زیادتی کر رہے ہیں ، یہ بھول رہے ہیں کہ جو بوئیں گے وہی کا ٹیں گے،
یہ مقتدرہ کا ساتھ بہت کم وقت کیلئے ہی ہو تا ہے ، یہ کسی وقت بھی اپنا بیج بدل لیتے ہیں ، یہ ایک پیج سے دوسرے پیج پر منتقل ہوتے رہتے ہیں ، ان کے ایک پیج پر ہونے سے اترانے کے بجائے سوچ و بچار کر نے کی ضرورت ہے کہ ان کے آلہ کار بن کر کل بھی پچھتائے اور آئندہ بھی پچھتائوئے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ، اس ایک پیج پر ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ عوام سے نہ صرف دور ہو گئے ،بلکہ عوام نے بڑی بے دردی سے مسترد بھی کر دیا ہے ، اس کے باوجود سمجھتے ہیں کہ عوام کی مرضی کے خلاف عوام پرہی حکومت کر پائیں گے تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے ۔
اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے سب سے نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے کہ جہاں پر مقتدرہ کے ساتھ سیاسی قیادت پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے،حالیہ الیکشن کی وجہ سے جو دیرپا سیاسی اور سماجی انحطاط کی علامتیں اُبھررہی ہیں ، ان کو روکنے کا بس ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں ملک کے مستقبل کی خاطر اکٹھے بیٹھ کر ایک نئے میثاق جمہوریت کی بنیاد ڈالیں اور ایک ایسی قانون سازی پر متفق ہوجائیں کہ جس کے باعث مقتدرہ اپنے سیاسی اور انتظامی کردار سے مکمل اجتناب کرنے پر مجبور ہو جائے، نئی حکومت کو فوری طور پر تمام سیاسی لیڈروں کو رہا کر دینا چاہیے اورتمام سیاسی مقدمات فوری طور پر واپس لے لینے چاہئے، اس میں ہی سب کی بہتری اور جمہوریت کی بقاء ہے ،بصورت دیگر اپنے ہی ہاتھو ں بوئیا ، ایک بار پھر خودہی کا ٹنا پڑجائے گا۔