دوسری باری سب پر بھاری!
اس ملک کے آصف علی زرداری دوسری مرتبہ صدر اورمیاں شہباز شر یف دوسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے ہیں،یہ دونوں ہی ایک دوسرے کی حمایت سے بنے ہیں اور دونوں نے ہی طے کر لیا ہے کہ آگے کیسے بڑھنا ہے، اب دیکھنا ہے کہ اِن دو بڑی جماعتوں کا سیاسی اتحاد کب تک چلتا ہے اور اس اتحاد سے ملک وعوام کو کیا فائدہ پہنچتا ہے، اگر نئی حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرتی ہے تو بہتری کی اُمید کی جا سکتی ہے،
ورنہ یہ دوسر ی باری سب پر ہی بھاری پڑنے والی ہے۔یہ کتنی عجب بات ہے کہ تیس تیس سال ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے والے آج ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اقتدار کی بندر بانٹ کررہے ہیں، ایک دوسرے کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں،یہ پیٹ پھاڑ کر قومی دولت نکلوانے کا دعویٰ کرنے والے، گلیوں میں گھسیٹنے کا اعلان کرنے والے اورچور دروازے سے اقتدار میں آنے کے طعنے دینے والے ایسے ایک دوسرے پر اعتماد کا اظہار کررہے ہیں کہ جیسے اِن میں کبھی کوئی بے اعتمادی رہی ہی نہیں ہے ،اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں مفادات کا کھیل کہاں تک پہنچ چکا ہے اور کیسے اپنے مفادات کا کھیل کھیلا جارہا ہے؟
اس ملک میں ہر کوئی اپنی ذات سے بالا تر ہو کر قومی مفاد کی باتیں تو بہت کرتا ہے ،لیکن عملی طور پر سب سے پہلے اپنے مفاد کو ہی دیکھ رہا ہے ،اس صدارتی انتخاب میں ہارنے والے صدارتی امیدوار نے بھی اپنے ہی مفاد میں اسے ہارس ٹریڈنگ سے پاک قر ار دیا ہے، اس کی ایک وجہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ وہ پی ڈی ایم ون کے نائب صدر رہے ہیں اور دوسرا پی ڈی ایم ٹو سے بگاڑنا نہیں چاہتے ہیں، حالانکہ جنہوں نے انہیں اپنا نمائندہ بنایا ہے ،وہ نہ صرف انتخابات کو متنازع قرار دیے رہے ہیں،
بلکہ دوسری متعد جماعتیں بھی ناجائز اور غیر جمہوری انتخاب قرار دیے رہی ہیں۔
ملک بھر میں ایک طرف دھاندلی کا شور ہے تو دوسری جانب نئی پارلیمنٹ اپنی مدت کا آغاز کرنے جارہی ہے،اس میں پہلے آئینی عہدوں کی بند بانٹ سب نے دیکھی ، اب وزارتوںکی بندر بانٹ دیکھائی دیے رہی ہے ، ملک کس دوراہے پر پہنچ چکا ہے ،اس کی کوئی فکر دکھائی دیتی ہے نہ ہی اس بارے کوئی سوچ رہا ہے ، ملک کو قرض کی دلدل سے نکالنے کے بجائے مزید قر ض لینے پر ہی توجہ دی جارہی ہے اور عوام کو باور کرایا جارہا ہے کہ ملک کو قر ض لیے بغیر نہیں چلایا جاسکتا ہے ،اگر ملک قر ض لیئے بغیر نہیں چلایا جاسکتا تو پھر یہ آئین سٹائین کیا کر نے آئے ہیں ؟ یہ ملک کو آزمائشوں سے نکالنے نہیں ، مزید آزمائشوں میں ڈالنے کیلئے آئے ہیں ،عوام کو بھکاری بنانے اور اغیار کی غلامی میں دینے آئے ہیں۔
اس آزمائی قیادت سے کوئی اچھی توقع رکھی جاسکتی ہے نہ ہی کوئی بہتر اُمید وابستہ کی جاسکتی ہے ،عوام ان سے پہلے سے ہی مایوس ہیں اور اس متنازع انتخابات کے بعد عوام کی مایوسی مزید بڑھتی جارہی ہے ،اس کا تدارک عوام کی مشکلات کے تدارک سے ہی ممکن ہے ، لیکن عوام کی مشکلات میں کمی لانے کے بجائے مزید بڑھائی جارہی ہیں ،جمہوریت کے نام پر جمہور کے ہی حق رائے دہی کو بدلا جارہاہے، جمہور کی آواز کو نہ صرف دبایا جارہا ہے ،بلکہ پا بند سلاسل کر کے دیوار سے بھی لگایا جارہا ہے،
عوام کے فیصلے کو طاقت کے زور پر بدلا جارہا ہے ، لیکن کوئی پوچھ رہا ہے نہ ہی کوئی روک رہا ہے ، اس ملک میں عدالتیں موجود ہیں، الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے بھی کام کررہے ہیں،لیکن عوام کی دادسی کہیں ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ۔
اس صورتحال میں عوام شدید بدل ہیں اور اس نظام پر نہ صرف بے اعتمادی کا اظہار کررہے ہیں، بلکہ اس کے خلاف سڑکوں پر احتجاج بھی کررہے ہیں اور یہ احتجاج آنے والے وقت میں مزید بڑھتا دکھائی دیے رہا ہے ،اس بارے سیاسی حلقو ں کے ساتھ فیصلہ سازوں کو بھی سو چنا ہو گا کہ اقتدار اُن لوگوں کو ہی ملنا چاہئے کہ جنہیں عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے منتخب کیا ہے ، یہ ڈ یل اور ڈھیل ، دھاندلی ،دھوکے بازی سے وقتی طور پر کچھ فائدہ تو لیا جاسکتا ہے ، مگر اس سب کا آگے چل کر نقصان ہی ہو نے والاہے
،اس آزمائی سیاست کی اجارہ داری سے اب عوام کی جان چھڑائی جانی چاہئے اور عوام میں سے ہی عوام کو اپنے نمائندے لانے کا موقع دینا چاہئے ،کیو نکہ اس نئی حکومت کے پرانے آزمائے چہروں سے کچھ خاص اُمید نہیں رکھی جاسکتی ہے کہ ملک کے حالات میں کوئی اچھی تبدیلی لے کر آئیں گے ، یہ آزمائے لوگ پہلے کچھ کر پائے نہ ہی آئندہ کچھ کرپائیں گے ، یہ اِن کی دوسری باریاں سب پر ہی بھاری پڑنے والی ہیں۔