78

نفرت کی سیاست

نفرت کی سیاست

جمہور کی آواز
ایم سرور صدیقی

پاکستان کی پوری تاریخ سیاسی محاذ آرائی سے بھری پڑی ہے مخالفین نے ایک دوسرے کو کبھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا سیاسی محاذ آرائی کا ایک طویل دور میاںنوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان گذراہے لوگوںکویاد ہوگامیاںنوازشریف وزیر ِ اعلیٰ پنجاب اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر ِ اعظم منتخب ہوئی تو دونوںنے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا خاتون وزیر اعظم لاہور آتیں تو وزیر اعلیٰ ان کے استقبال کے لئے بھی نہ جاتے ان کے مابین سیاسی محاذ آرائی اتنی بڑھی کہ وہ ایک دوسرے کو سیکیورٹی رسک قرار دینے لگے یہ سلسلہ دو دہائیوںتک محیط رہا اس دوران قوم واضح طور2پارٹیوں میں تقسیم ہوگئی

کبھی نوازشریف وزیر ِ اعظم بنے تو انہوںنے بے نظیر بھٹو کے ساتھ پورا آڈھالگائے رکھا ان کے خلاف نیب میں آمدن سے زیادہ اثاثے،کرپشن،اختیاراتسے تجاوز کے درجنوںکیس بنائے آج کے حلیف آصف زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب دے کر ان کی کردار کشی کی گئی اور جب بے نظیر بھٹو وزیر ِ اعظم بنیں تو ہرسال میاںنوازشریف ضیاء الحق کی برسی کااہتمام کرتے اس کی آڑمیں درحقیقت بینظیربھٹو کے خلاف ایک محاذ گرم کیا

جاتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سازشوںکے ذریعے کرپشن کاالزام لگا کر2مرتبہ حکومت گرائی گئی یہی حال بے نظیربھٹونے نوازشریف کے ساتھ کیا اسی الزام میں ان کی حکومت کا خاتمہ بھی کیا گیا مزے کی بات یہ ہے کہ دونوںنے ایک دوسرے کے خلاف درجنوں مقدمات قائم کئے جو چند ماہ پہلے آئینی ترامیم کے ذریعے ختم کرانے کی کوشش کی گئی اسی طرح سندھ حکومت اور وفاق کے مابین لڑائی بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں،مسلم لیگ ن اور تحریک ِ انصاف کے ادوار میں بھی یہ کشیدگی اپنے عروج پر تھی اب لگتاہے

تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہرانے کی کوشش کرے گی کیونکہ اب وفاق میں PDMکی حکومت ہے ان کے سیاسی حریف اور ملک کے واحد اپوزیشن رہنماعمران خان جیل میں ہیں خیبر پی کے میں تحریک ِ انصاف کی حکومت ہے PTI رہنمائوںکا کہناہے کہ ان کے لیڈر عمران خان کی کردارکشی کرکے ان کی شخصیت کو مسخ کیا جارہا ہے ان کے سیاسی مخالفین ہرقیمت پر عمران خان کو پاکستان کی سیاست سے مائنس کرنا چاہتے ہیں اس میں وہ وقتی طور پر کامیاب بھی ہو چکے ہیں کہ فی الوقت وہ اسمبلی سے باہر ہیں

عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس، قادر یونیورسٹی سمیت کئی مقدمات زیر ِ سماعت ہیں لیکن اس سے بھی انکار محال ہے کہ ان الزامات کے باوجود عمران خان پاکستان کے سب سے مقبول و ہردلعزیز سیاستدان ہیں جن کے حامیوں کو یقین ہے کہ ہمارے لیڈر کے خلاف من گھڑت الزامات پرعوام کا شعور اور جذبہ ظلمت کے اندھیروں میں بھی امید کی شمع جلائے ہوئے ہے!! بدترین فسطائیت کے دور میں بھی پاکستان کی غیور عوام نے جس طرح عمران خان کو پذیرائی دی ہے، وہ قابلِ تحسین ہے!

جس ملک میں تھوڑے سے لوگ امیر جبکہ باقی غریبوں کا سمندر ہو، اور وسائل پر قابض طبقہ صرف ذاتی مفادات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں ترتیب دے، وہاں کبھی استحکام نہیں آسکتا جبکہ تحریک ِ انصاف کے مخالفین عمران خان کو پلے بوائے، یہودی ایجنٹ اور اسلامی ٹچ دینے والاڈرامے باز قراردیتے نہیں تھکتے اب چونکہ PTI کے علی امین گنڈاپور وزیر ِ اعلیٰ منتخب ہوچکے ہیں وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے کہا ہے کہ وفاق سے ملنے والا پیسہ بھیک نہیں ہمارا حق ہے، جو لے کر رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میری پہلی ترجیح صوبے میں امن و امان کا قیام ہے، امن کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے، امن و امان کے حوالے سے مکمل پلان بنایا ہے جس پر جلد کام شروع ہوگا۔ علی امین کا کہنا تھا کہ میری ترجیح صوبے کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنا ہے، ہم لوگوں کو مچھلی پکڑنا سکھائیں گے، سال میں اگر کسی کو 10 ہزار روپے دے دئیے جائیں تو اس سے اس کا کیا بنتا ہے، قوم بنتی ہیں جو اپنے پاؤں پہ کھڑی ہوتی ہیں۔ لوگوں کو خیرات دے کر قومیں نہیں بنتیں۔انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو چاہیے اپنا کاروبار کریں، چھ لاکھ روپے کی بھینس 15 سے 16 کلو دودھ دیتی ہے جس سے اچھا روزگار کمایا جا سکتا ہے،

نوجوان چوتھے گریڈ کی چپڑاسی کی نوکری کے لیے پانچ سے چھ لاکھ روپے رشوت دے رہے ہیں، وہ اپنی بھینس پال کر بہتر روزگار کما سکتے ہیں۔ بہتر ہے کہ ایک گائے ہی پال لیں اگر ایک لاکھ روپے کی مرغیاں لے لیں تو آپ کو کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ وزیراعلیٰ کے پی نے کہا کہ جو وفاق نے ہمیں بقایا جات دینے ہیں وہ تو ان کو دینے پڑیں گے، یہ ہمارا حق ہے کوئی خیرات اور بھیک نہیں، ہمارا صوبہ آپ کو سستے داموں بجلی دے رہا ہے جو آپ مہنگے داموں بیچ رہے ہو، وفاق نے صوبے کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا ہے جس کے مطابق بھی پیسے نہ ملیں تو یہ پھر مذاق ہے، وفاق ہمارے صوبے کو کچھ سمجھتا ہی نہیں ہے

وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور کی باتیں سیاسی محاذ آرائی کی شروعات ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن ، شہبازشریف سرکار اور پیپلزپارٹی، بیوروکریسی اور حالات نے جو کچھ تحریک ِ انصاف کے امیدواروں،رہنمائوں اور بالخصو ص عمران خان کے ساتھ کیا ہے یہ نفرت کی سیاست ہے جو کسی طوربھی ملک وقوم کے مفادمیںنہیں ہے پاکستان کی وسیع تر مفادمیں محاذ آرائی سے بچناکیلئے دلوںکو وسعت دینے سے ہی حالات بہتر ہوسکتے ہیں کیونکہ معاشرے میں پہلے ہی عدم برداشت سے بہت مسائل پیدا ہورہے ہیں

لوگ ذرا ذرا سے بات پر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں اسی لئے ایک دوسرے کا حق تسلیم کئے بغیر پاکستان ترقی کرسکتا ہے نہ معیشت کی حالت بہتر ہوسکتی ہے PDM رہنمائوں کو وسیع قلبی کا مظاہرہ کرناہوگا کیونکہ ملک میں اب ان کی حکومت ہےPTI کے کچھ تحفظات ہیں تو انہیں دور کیا جائے یہی سب کے حق میں بہتر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں