پاک ایران تعاون کے کھلتی راہیں !
ایران کے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی پاکستان کے تین روزہ دورے پر ہیں ،ایرانی صدرایسے ماحول میں پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں، جب کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی عروج پر ہے، ایران اور اسرائیل باہم برسر پیکار ہیں اور ایک دوسرے کی تنصیبات پر راکٹوںسے حملے کر چکے ہیں ،اس وقت کوئی بھی ملک واضح طور پر ایران کے ساتھ کھڑا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے،لیکن اسرائیلی جاریحانہ پا لیسی پر پاک ایران موقف نہ صرف ایک ہے، بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعاون بڑھانے پربھی پش رفت کررہاہے ، جبکہ پاک ایران تجارتی معاہدوں کے سوال پر امریکی محکمہ خارجہ کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
امر یکہ ایک طرف پاک ایران تجارتی معاہدوں پر پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ کررہا ہے تو دوسری جانب پاکستان کو باور بھی کرارہا ہے کہ امریکہ پا کستان کیلئے نہ صرف ایک بڑی تجارتی منڈی ہے ، بلکہ پا کستان امر یکہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارت کررہا ہے ، اس میں مزید اضافے کے امکانات ہیں ، لیکن پا کستان کو امر یکی پا لیسی کو مد نظر رکھانا ہو گا ، امر یکہ کبھی نہیں چاہئے گا
کہ پاک ایران تعلقات بہتر ہوں اور تجارتی تعاون بڑھے ،پاک ایران تجارتی تعاون میں پہلے بھی امر یکی پا بندیاں آڑے آتی رہی ہیں اور اس بار بھی آنے کے خدشات پائے جاتے ہیں ، لیکن پا کستان کو اپنی بہتر سفارت کاری سے ان رکاوٹوں کو بھی دور کر نا ہی پڑے گا ۔یہ کتنی عجب بات ہے کہ بھارت سمیت دیگر ممالک ایران سے تجارت کررہے ہیں ،لیکن پا کستان کی باری آتی ہے تو امر یکہ پا بندیوں کی آگاہی دینے لگتا ہے ، پاک امر یکہ تجارت اثر انداز ہو نے کی دھمکیاں دینے لگتا ہے ، امر یکہ کی پا کستان کیلئے دوغلی پا لیسی سمجھ سے بالا تر ہے ، پا کستان کو جہاں امر یکہ سے اپنی تجارت بڑھانی ہے
،وہیں اپنے ہمسا ئیہ ممالک سے بھی تجارتی تعاون میں اضافہ کر نا ہے ، ہمسائیہ ممالک سے تجارتی فروغ کا سب سے اہم افادی نکتہ ہے کہ قریبی ہمسایہ ہونے کے ناتے تجارتی مال کی نقل و حرکت کے اخراجات کم اور وقت کی بھی کافی بچت ہو جاتی ہے ، دنیا ئے عالم میں ہر کوئی اپنے مفادات اور اپنا فائدہ دیکھتا ہے اور ہمیں بھی دوسروں کے مفادات کے بجائے اپنے مفادات کو تر جیح دینے کی پا لیسی اپنانا ہو گی ۔
یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ ایرانی صدر نے آتے ہی تجارتی حجم بڑھانے کی بات کی ہے ، وہ اڈھائی ارب سے دس ارب پر لے جانا چاہتے ہیں، کیو نکہ دونوں ممالک کے پاس پیداواری صلاحیتوں کے ساتھ کھپت کی مارکیٹ بھی ہے ، اس سے دونوں ممالک کی تجارت مزید بڑھے گی اور دونوں ممالک کے تعلقات میں بھی زیادہ بہتری آئے گی، ایران کے ساتھ جہاں تجارتی حجم میں اضافے پر بات ہورہی ہے
وہاں توانائی کے اہم گیس کے منصوبے کو بھی آگے بڑھانے پر گفتگو ہو نی چاہئے ،کیو نکہ توانائی کا بحران پا کستان کا انتہائی بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے ،اگرہماری توانائی کی جرورت ایران سے پوری ہو تی ہے تو اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟اس کیلئے ضروری ہے کہ امر یکہ سے ہر معاملے پر بات چیت کی جائے اور اسے رضامند کیا جائے کہ پاک ایران تجارت اور تونائی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناناوقت کی اہم ضرورت ہے۔
پا کستانے ہر ایک سے تعلقات قائم رکھنے ہیں ، مگر اس کی قیمت نہیں چکا نی ہے ، امر یکہ کیلئے ایران سے تعلقات خراب کر نے ہیں نہ ہی ایران کیلئے امر یکہ سے تعلقات بگاڑنے ہیں ، پا کستان کی پا لیسی رہی ہے کہ سب کے ساتھ بلا تفریق یکساں تعلقات قائم رکھے جائیں ، اس پا لیسی کو ہی آگے بڑھانا چاہئے ، اس حوالے سے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سابق مندوب ملیحہ لودھی کا کہنا بجاہے کہ پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات امریکا کا نہیں ہمارا معاملہ ہے، اگر پاک ایران بہتر تعلقات امریکا کے مفاد میں نہیں
تو وہ امریکا کا مسئلہ ہے، ہمارا نہیںہے،ہم نے اپنے مفادات دیکھنے ہیں، ہمارے لیے ایرانی صدر کا دورہ جہاں تجارتی فروغ کے لیے اہمیت کا حامل ہے ،وہیں گزشتہ دونوں ممالک میں کشیدگی سے ہوئے نقصان کے ازالے کے لیے بھی اتہائی ضروری ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسرائلی جاریحانہ پا لیسی کے باعث دنیا تیسر ی جنگ عظیم کے دھانے پر کھڑی ہے ، تاہم پا کستان سمیت دیگر امن کے دائی ممالک امن کیلئے کو شاں دکھائی دیتے ہیں
، ایرانی صدر کا دورہ کستان عالمی و علاقائی مسائل پر ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھنے اور دہشت گردی کے خاتمے اور مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے لئے بھی دو طرفہ تعاون پر بات چیت کو مزید آگے بڑ ھانے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے،اُمید کی جا سکتی ہے کہ عزت ماب ایرانی صدر جناب رئیسی کا دورہ مشترکہ تجارت سمیت مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون و مفاہمت میں اضافے اور پاک ایران تعلقات کو مزید مستحکم بنانے میں جہاں سنگ میل ثابت ہو گا، وہیں مشرق وسطیٰ کے قیام امن میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔