کسان فصل کی اُجرت سے محرروم رہے گا ! 83

غریب ملک کے امیر حکمران !

غریب ملک کے امیر حکمران !

دنیا بھر میںپا کستانی حکمران اشرافیہ کے کتنے کہاں آثاثہ جات ہیں، عوام جانتے ہیں نہ ہی کسی کو کچھ معلوم ہے ، لیکن دنیا میںجب بھی کوئی لیکس آتی ہے ،جیسا کہ گزشتہ روز دبئی پراپرٹی لیکس آئی ہے توسارے ہی شور مچانے لگتے ہیں کہ ہمارے آثاثہ جات ڈکلیئرہیں ، اس دبئی پراپرٹی لیکس میں کچھ نیا ہے نہ ہی کوئی نئی بات ہے ،عوام پہلے سے ہی سب کچھ جانتے ہیں ،جبکہ عوام بالکل نہیں جانتے ہیں کہ دبئی میں17ہزار پا کستانی گیارہ ارب ڈالر کی جائیدادوں کے مالک ہیں اور اس میں زیادہ تر حکمران اشرافیہ کی جائیدادیں ہیں ، لیکن یہ عوام بخوبی جانتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی احتساب ہونے والا نہیں ہے۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ اس ملک کی حکمران اشرافیہ جتنی امیر ،اتناہی ملک غریب ہوتا جارہا ہے، اس ملک کو غریب کس نے بنا یاہے اور کس نے بدحالی کے کنارے پہنچایا ہے ؟اس حکمران اشرافیہ کا ہی سب کچھ کیا دھرا ہے کہ جن کے کاروبار اور جائدادیں دوسرے ممالک میں پائی جاتی ہے ،اور ہر آنے والی لیکس میں ان کے ہی نام سامنے آتے ہیں ، لیکن انہیں کوئی پو چھنے والا ہے نہ ہی کوئی ان کا احتساب کرنے والا ہے ، کیو نکہ اس فہرست میں پائے جانے والوں کے ساتھ سارے ہی ملے ہوئے ہیںاور مل کر ہی کھا رہے ہیں

اور مل کرہی بیرون ملک سب کچھ بنا ئے جارہے ہیں۔اس ملک کے عوام غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں اور حکمران اشرافیہ امیر سے امیر تر ین ہوتے جارہے ہیں ،اس کے باوجود قرض پر قرض لیا جارہا ہے اور اس قر ض کا بوجھ عام عوام پر ہی ڈالا جارہا ہے ،حکمران اشرافیہ پورا ٹیکس دیتے ہیں نہ ہی اپنے ملک میں سر مایہ کاری کرتے ہیں ،کیو نکہ وہ جانتے ہیں کہ پکڑے جائیں گے ،عوام ان کی اصلیت جان جائیں گے ،اس لیے ہی بیرون ملک سر مایہ کاری کی جاتی ہے ، بیرون ملک ہی آثاثہ جات بنائے جاتے ہیں اور بڑھائے جاتے ہیں، اگریہ لیکس نہ آئیں تو عوام ان کے بارے کچھ جان ہی نہ پائیں ، لیکن ایک بعد ایک لیکس ان کے پول کھول رہی ہے اوران کے اصل چہرے سامنے لا رہی ہے ۔
ہر لیکس کی طرح دبئی پراپر ٹی لیکس میں بھی بڑے اہل سیاست و اہل ریاست کے نام آنے کے بعد سے ہی وضاحتوں کا سلسلہ چل نکلا ہے ، ہر کوئی اپنے طور پر وضاحت دیے رہا ہے اور اپنے ہی طور پر بتائے جارہا ہے کہ ان کے سارے اثاثے ڈکلیئر ہیں تو پھر وضاحتیں دینے کی کیا ضرورت ہے ، اس کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ تو کالا ہے ،جبکہ دال ساری ہی کالی ہے ،اس کو سفید کر نے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے

، عوام حقائق سے بخوبی آگاہی رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس لیکس میں آنے والے بھی دیگر لیکس میں آنے والوں کی طرح ہی سر خرو ہی رہیں گے ، اس سے پہلے کسی بارے تحقیقات ہوئیں نہ اس بار ہوں گی ،یہ لوگ کل بھی دودھ کے دھلے تھے ،یہ آج بھی دودھ کے ہی دھلے رہیں گے ، ان پر کوئی مائی کالال ہاتھ ڈالنے کی جرأت کر سکتا ہے نہ ہی ان کے احتساب بارے سوچ سکتا ہے۔
اگراس طرح ملک میں ہی دہرا معیار ہو گا تو ملک کیسے آگے بڑھے گا اور عوام کی زندگی میں کیسے تبدیلی آئے گی ،

ایک طرف دونوں ہاتھوں سے بنایا جارہا ہے تو دوسری جانب عوام سے روٹی کا نوالہ بھی چھینا جارہا ہے ،اس کے بعد دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ملک کو خوش حال بنائیں گے عوام کی زندگی میں تبدیلی لائیں گے ،جبکہ ملک کو معاشی بدحالی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے اور عوام کی زندگی عذاب بنا کر رکھ دی گئی ہے ، یہ عوام کے حقیقی نمائندے ہیں نہ ہی عوام کی حمایت رکھتے ہیں ،اس کے باوجود عوام پر مسلط ہیں اور عوام کا ہی خون نچوڑے جارہے ہیں ، یہ عوام کئے نام پر در بدر کشکول لے کر گھومتے ہیں اور اس کشکول میں ملنے والی ساری امداد خود کھا جاتے ہیں ،ملک و عوام کل بھی آئی ایم ایف کی غلامی میں رہے ، آج بھی اُن کی ہی غلامی جھیل رہے ہیں اور آزمائے حکمرانوں کے اقتدار میں رہتے آزادی حاصلنہیں کر پائیں گے۔
اگر دیکھاجائے تو اس ملک کو اللہ تعالیٰ نے آزادی کے ساتھ بے پناہ وسائل سے نوازا ہے، دنیا کی ہر نعمت اس ملک میں موجود ہے،اس کے باوجود دوسروں کی طرف دیکھ رہے ہیں ، دوسروں کے سامنے ہاتھ پھلائے ہوئے ہیں ،اگراس ملک کے ہی وسائل کوخلولوص دل اور نیک نیتی سے استعمال کرلیا جائے تو ہماری حیثیت غلامی میں رہنے والوں اور بھیک مانگنے والے کے بجائے دوسروں کو نوازنے والوں کی ہو جائے گی،

لیکن ہمارے ملک کے آزمائے حکمران مزاجاً غلام ہیں اور اپنے حصول مفاد میں غلامی کو ہی تر جیح دیتے ہیں ، لیکن اس غلامانہ ذہنیت کے باعث فائدہ حکمران اشرافیہ کا اور نقصان ملک و عوام کا ہورہا ہے ، عوام اور ریاست غریب اور حکمراں امیر سے امیر ترین ہوتے جارہے ہیں ، لیکن یہ سب کچھ زیادہ دیر تک چلے گا نہ ہی عوام مزید بر داشت کریں گے ، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو تا جارہا ہے اور عوام باہر نکلنے لگے ہیں،اس وقت سے ڈریئے کہ جب عوام کے ہاتھ میں حکمران اشرافیہ کے گریباں ہو نگے ،عوام ہی ان کا حساب و احتساب کریں گے اور انہیں کوئی بچا بھی نہیں پائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں