ہتک عزت کی آڑ میں آزادیِ صحافت پر پابندی !
ایوان پارلیمان کا کام ہی عوام کی بھلائی کیلئے قانون سازی کر نا ہے ، لیکن اس ملک کے ایوان پارلیمان میںکچھ ایسی قانون سازی بھی کی جارہی ہے کہ جس کا مقصد عوام کو تحفظ فرہم کر نے کے بجائے اپنے ہی مفادات کویقینی بناناہے ، اس کی تازہ مثال پنجاب اسمبلی سے ہتک عزت بل کی منظور ی ہے ،اس ہتک عزت کے قانون کی منظوری پر صحافتی تنظیموں،اپوزیشن اور انسانی حقوق کی تنظیموں و کارکنوں نے شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے
اسے کالا قانون قرار دیا ہے، کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز(سی پی این ای) نے پنجاب اسمبلی کے منظور کئے گئے نئے ہتک عزت قانون کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے ،جبکہ پاکستان کمیشن برائے حقوق انسانی نے ہتک عزت قانون کو مواد اور متن کے حوالے سے پریشان کن قرار دیا ہے،لیکن حکومتی قیادت بضد ہے کہ یہ ہتک عزت بل عوامی مفاد میںہی منظور کریاگیا ہے ۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ یہ حکوت کی اتحادی قیادت ہی جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو آزدیٔ اظہار اور آزادی ٔ صحافت کے بارے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور جب اقتدار میں آتے ہیں تو ان دونوں پر ہی قدغن لگانے لگتے ہیں ،اس بار بھی اتحادی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے ، ایسا ہی کچھ کررہی ہے ،کسی سے مشاورت کررہی ہے نہ ہی پیش کردہ تجاویز پر غور کررہی ہے ، بلکہ اپنی من مانیاں کر تے ہوئے ہر بل منظور کروائے جارہی ہے
،پنجاب اسمبلی میں ہتک عزت بل کی منطوری پر بھی ایسا ہی کچھ روئیہ روارکھا گیا ہے، اس بل کے پیش ہوتے وقت اپوزیشن نے اسے کالا قانون قرار دیتے ہوئے احتجا جاََبل کی کا پیاں پھاڑ کر اس کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے ،جبکہ اس کے خلاف میڈیا مالکان وکارکنان نے بھی احتجاج کرتے ہوئے پریس گلری سے واک آئوٹ کرگئے ،اس کے باوجودپنجاب حکومت نے میڈیا کا احتجاج اور اپوزیشن کی تجاویز مسترد کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی سے ہتک عزت کا بل کثرت رائے سے منظور کروا لیا ہے ۔
اس ملک میں ہتک عزت کے حوالے سے پہلے سے ہی قوانین موجود ہیں ،اس کے باوجود ایک نیا قانون بنا کی ضرورت اس لیے پیش آرہی ہے کہ حکومت اپنا ہی چہرا آئنے میں دیکھنے کا حوصلہ رکھتی ہے نہ ہی خود پر تنقید پرداشت کرنے کا جگر ا رکھتی ہے، اس لیے گھبراہٹ میں ہتک کے عزت جیسے بل منطور کرائے جارہے ہیں
،پنجاب حکومت نے ہتک عزت بل تو منظور کروا لیا ہے ،لیکن اس ہتک کے عزت کے بل کو کوئی مان رہا ہے نہ ہی اسے قبول کر نے کیلئے تیار ہے ، اس بل کو میڈیا انڈسٹری نے جہاں عدالت میں چیلنج کر نے کا عندیہ دیا ہے وہیں اس کے خلاف اپوزیشن نے بھی عدالت میں جانے کا اعلان کیا ہے ، اپوزیشن رکن رانا آفتاب کے مطابق آئین سے متصادم بل عدالت میں پہلی دوسری سماعت پر ہی کالعدم ہو جائے گا ۔
یہ ہتک عزت بل عدالت سے کالعدم ہوتا ہے کہ نہیں، آنے والا وقت ہی بتائے گا ،لیکن ایک بات طے ہے کہ اظہارے رائے کی آزادی دبانے ، رشوت ، سفارش، جنسی ہراسانی،توہین اور تشدد کے واقعات کی شکایات کو ہتک عزت کی آڑ میں غیر موثر بنانے کا انتظام کیا جارہا ہے، اس پرستم ہے کہ ہر ناانصافی پر اٹھنے والی ہر آواز کو ہی سخت قانونی کارروائی سے خاموش کرایا جا رہا ہے،ایسے قوانین سماج کو مہذب بنانے کی بجائے صرف حکمران اور بد عنوان طبقات کے مفادات کی تکمیل ہی کر سکتے ہیں،
لیکن باشعور عوام ،حکمران اشرافیہ کے مفادات کی تکمیل ہو نے دیں گے نہ ہی میڈیا ایسی کو ئی اضافی قانونی پابندیاں قبول کر پائے گا ،جبکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اپنے پہلے سے ہی قواعد و ضوابط موجود ہیں، اس پر عمل بھی ہورہا ہے ،مسئلہ تو صرف سوشل میڈیا کا ہے کہ جس نے اتحادی حکومت اور اس کے سر پرستوں کی ناک میں دم کررکھا ہے ، لیکن سارے میڈیا کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی خواہش نہ جانے کیوں پیدا ہو گئی ہے؟ سوشل میڈیا کی آڑ میں دوسرے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے نہ ہی ایسی کوئی کائوش کا میاب ہو نے دی جائے گی ،
کیو نکہ روایتی میڈیا اپنے قوانین کا پابند رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا ،لیکن حکومت کی جانب سے ہتک عزت کے قانون کی آڑ میںمکمل زباں بندی قابلِ قبول ہو سکتی ہے نہ ہی حکومت ایسی زباں بندی کرواپائے گی ، اس لیے حکومت کو چاہئے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ہی قانون سازی کرنے کی کوشش کر یں،بصورت دیگر ہتک عزت کے نام پر آزدی صحافت پر پا بندی لگانا،حکومت پر ہی بھاری پڑجائے گا۔