ڈائیلاگ کا راستہ کھلا رہنا چاہئے !
ملک میں سیاسی بحران کے سائے جس طرح معاشی و سماجی شعبوں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں ، ہر طبقہ ہی سیاسی مفاہمت کی دہائی دیے رہا ہے ، اہل سیاست بھی مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ گفتگو کا راستہ کھلا رہنا چاہئے ،لیکن گفتگو کا راستہ کھولا جارہا ہے نہ ہی ایک میز پر اکھٹے بیٹھا جارہا ہے ، الٹا خواجہ سرا کا روپ دھار کر سیاسی مخالفین کو تشددت کا نشانہ بنایا جارہا ہے
،کہیں ایسا تو نہیں کہ سیاسی جماعتوں کو اداروں سے لڑا کر کچھ لوگ اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟اگر ایسا ہی ہے تو پھرنقاب کے پیچھے چہروں کوبے نقاب کئے بغیر مفاہمت کا کوئی راستہ کھولا جاسکتا ہے نہ ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔اس ملک میں عر صہ دراز سے کچھ ایسی قوتیں سر گرداں رہی ہیں ، جوکہ سیاسی جماعتوں کو اداروں سے لڑا کراپنے مقاصد پورے کرتی ہیں ، لیکن اس میں آلہ کاراپنے ہی لوگ بنتے رہے ہیں ،
یہ وہی لوگ ہیں ،جو کہ کبھی سیاست دانوں کے چہرے پر سیاہی پھینکتے ہیں ،کبھی ان کے چہرے پر بلیڈ مارتے ہیں، انہیں آپس میں لڑاتے ہیں تو کبھی ان پر قاتلانہ حملہ کراتے ہیں،اس کے باوجود بچ جاتے ہیں، انہیں کوئی دوسرا نہیں ،اپنے ہی بچاتے ہیں اور اپنے ہی چھپاتے ہیں ، یہ سلسلہ عرصہ دراز سے ایسے ہی چلتاجارہا ہے ،اس سلسلے کو جب تک روکا نہیں جائے گا اور نقاب کے پیچھے چہروں کو بے نقاب نہیںکیا جائے گا ، ملک کے حالات بہتر ہوں گے نہ ہی ملک میں استحکام آئے گا۔
ملک میں استحکام لانے کیلئے اتحادی حکومت کچھ کررہی ہے نہ ہی اس حکومت کی سر پرستی کر نے والے کچھ کر نے کی کوشش کررہے ہیں ، حالا نکہ اگر مقتدرہ چاہئے تو سارے اُلجھے معاملات اُن کے ایک قدم آگے بڑھانے سے سلجھائے جا سکتے ہیں ، لیکن جانے کیوں ،قومی مفاد میں ایساکچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے ، حکومت زبانی کلامی ڈائیلاگ کی باتیں کرتی ہے ،مگر عملی اقدام سے گریزاں ہے ، کیو نکہ اسے اپنا اقتدار جاتا دکھائی دیتا ہے ، جبکہ مقتدراہ کسی صورت میں اپوزیشن کو اقتدار دینا ہی نہیں چاہتے ہیں
، اس صورتحال میں مفاہمت کا ڈول کیسے ڈالا جاسکتا ہے اور کیسے ڈائیلاگ کا راستہ کھولا جاسکتا ہے ؟اس صورتحال کا ادرک کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا کہنا بجا ہے کہ کہ آئین پاکستان کی کوئی حیثیت رہی ہے نہ ہی پارلیمان کی کوئی اہمیت رہی ہے ، سارے بلند و بانگ دعووں کے باوجود عام آدمی کو رلیف دیاجاسکا نہ ہی امن فراہم کیا جاسکاہے، اگر عوام کے فیصلے کا احترام نہ کیا گیا اور عوام کو اس کا حق نہ دیا گیا تو پھر فیصلے سڑکوں پر ہی ہوں گے۔اگر دیکھا جائے تو حالات دب بدن خراب سے خراب تر ہی ہو تے جارہے ہیں ، ہمارے لیے ان حالات سے نکلنے کا راستہ بالکل واضح ہے،
ہم چاہیں تو اپنے قومی کارواں کی سمت ایک فلاحی جمہوری مستقبل کی جانب موڑ سکتے ہیں اور اس سے متضاد طرز حکومت کی جانب بھی جاسکتے ہیں ، یہ اب قومی سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں،اگرسیاسی قیادت قومی گاڑی کو استحکام و ترقی کی راہ پر ڈالنا چاہتی ہے تو اس کیلئے سیاسی رہنمائوں میں اتفاق رائے نا گزیر ہے ، ہمارے قومی مسائل کا واحد حل گر ینڈ ڈائیلاگ کی جانب ہی لے کر جاتا ہے ، اس میںپہلے ہی خاصی تاخیر ہو چکی ہے ، اگر مزید وقت کا ضائع کیے بغیر اس کیلئے فوری تیار ہو جائیں تو ماضی کا مداوا نہ بھی ہو پائے،مگر مستقبل کے نقصان کی روک تھام ضرور ہو جائے گی ۔
اتحادی حکومت مذاکرات کے نام پر اپوزیشن کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل بہت کھیل چکی ہے ، اتحادی حکومت کو اب اس کھیل تماشے سے باہر نکلنا ہو گا، اگر حکومت واقعی ملک میں استحکام لانے کی خواہاں ہے تو اسے ڈائیلاگ کیلئے سنجیدگی دکھانا ہو گی ، حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی مزید چل سکتی ہے
نہ ہی اداروں میں ٹکرائو برداشت کیا جاسکتا ہے ، ملک و عوام ایسا کوئی اضافی بوجھ اُٹھانے کیلئے تیار ہیں نہ ہی کوئی بڑا نقصان بر داشت کر نے کی طاقت رکھتے ہیں ، اس لیے مفاہمت کی سیاست کے فروغ میں اہل سیاست کے ساتھ اہل ریاست کو بھی آگے آنا ہو گا اورسیاسی انتشار کے خاتمے کے ساتھ ملک میں استحکام لانے میں حسب استعداد اپنا کرادار ادا کر نا ہو گا ، بصورت دیگر بگڑتے حالات میں سب کچھ ہی بکھر جائے گا اور کوئی کچھ سنوار پائے گا نہ ہی کچھ بچا پائے گا۔