غیبت
غیبت
مصنفہ : عرشی کومل سجاد حسین
اخلاقی پیماریوں میں غیبت جس قدر بری بیماری ہے بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اسی قدر عام ہے۔ بہت کم لوگ ہوں گے جو اس بیماری سے محفوظ ہوں گے اللہ نے مسلمانوں کو اس گنا سے بچنے کی تلقین کرنے ہوئے فرمایا ہے
ترجمہ اور برا نہ کہو پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو، بھلا خوش لگتا ہے۔ تم میں کسی کو کھانے گوشت اپنے بھائی جو مردہ ہو تو گھن آتی ہے تم کو اس سے۔( سورة الحجرات آیت نمبر 12)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے کہ ایک بدبو اٹھی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جانتے ہو یہ بدبو کس کی ہے؟ یہ بدبو ان لوگوں کی ہے جو مسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں۔
(مسند احمد، مجمع الزوائد)
غيبت کے لیے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی تمثیل انتہائی بلیغ ہے کیونکہ جس شخص کی غیبت کی جاتی ہے، وہ اپنی مدافعت نہیں کرسکتا۔ اسی طرح غيبت سے باہمی نفرت کو ہوا ملتی ہے اور دشمنی کے جذبات بھڑکتے ہیں غيبت کے مرض میں مبتلا خود کو عموماً عیبوں سے تصور کرنے لگتا ہے، اور جس کی غیبت کی جائے وہ اپنے عيب کی تشہیر ہو جانے کے باعث اور ڈھیٹ ہو جاتا ہے۔ غرض غیبت پر حاظ سے معاشرتی سکون کو برباد کرتی ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا
جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھل رہے تھے،میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں( یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔‘‘
شریعت اسلامی میں غيبت صرف دو صورتوں میں جائز قرار دی گئی ہے۔ ایک مظلوم کی ظالم کے خلاف فریاد کی شکل میں اور دوسرے لوگوں کو کسی فریب کار کی فریب کاری سے آگاہ کرنے کے لیے۔ بعض علماء نے نقل اتارنے اور تحقیر آمیز اشارات کرنے کو بھی غیبت میں شمار کیا ہے۔