148

خود کو تبدیل کریں!

خود کو تبدیل کریں!

تحریر:صباء شوکت

”معاشرہ ہی برا ہے۔“،
”کیا کریں جی، زمانہ ہی خراب ہے۔“ ”فتنوں کا دور ہے ہم کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔؟“ ایسے درجنوں فقرے سارا دن ہمارے کانوں سے ٹکراتے رہتے اور ہماری اپنی زبان سے ادا ہوتے رہتے ہیں۔

کیا یہ سچ ہے۔؟؟ ہے تو مگر آدھا۔
درحقیقت یہ پورا سچ نہیں ہے کیونکہ ہم معاشرے سے نہیں بلکہ معاشرہ ہم سے ہے۔ تمام انسان مل کر معاشرے کو تکمیل دیتے ہیں۔ یعنی معاشرہ انسانوں سے وجود اور نمو پاتا ہے۔ جب ہم نے معاشرے کو پروان چڑھایا ہے پھر ہم کیسے معاشرے کی وجہ سے برے ہوگئے۔؟

ایک انسان جو نشہ کرتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے دوستوں کو اس لعنت کا عادی بنا دیتا ہے۔ کوئی شخص جو چوری کرتا ہے وہ بھی اسی طرح چور اکٹھے کرتا ہے اور ایک دن ڈاکوؤں کا گروہ بن جاتا ہے۔ جتنے بھی جرائم ہیں وہ اسی طرح پروان چڑھتے ہیں۔ یعنی ہم انسان خود ہی برائی کو معاشرے میں پھیلاتے ہیں۔ پھر بھلا معاشرا کیسے برا ہوا۔؟

جرم تو انسان کا ہے جس نے معاشرے میں شر پھیلایا۔
اس لیے معاشرے کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔

اگر ہم معاشرے میں مثبت تبدیلی چاہتے ہیں، اگر ہماری خواہش ہے کہ معاشرے سے برائی کا خاتمہ ہو تو سب سے پہلے اپنی ذات میں تبدیلی لانی ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ جو تبدیلی ہم معاشرے میں چاہتے ہیں وہی تبدیلی خود میں لائیں۔

جیسے ”ایک گندی مچھلی پورے تلاب کو گندا کرتی ہے.“ اور ”خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے.“ اسی طرح اچھائی اور نیکی بھی اپنا رنگ دکھاتی ہے اور دوسروں کو اس طرف کھینچ لاتی ہے۔ اس لیے اگر آپ معاشرے کو خوبصورت دیکھنا چاہتے ہیں تو خود کو خوبصورت بنائیں اور
اچھائی کا آغاز اپنے آپ سے کریں۔

دراصل ہم اپنی ذات کا عکس ہی دوسروں میں دیکھتے ہیں، اگر ہم اندر سے بہترین انسان ہیں تو ہمیں دوسرے لوگ ہمیشہ بہترین ہی نظر آئیں گے لیکن اگر ہمارے اپنے اندر نقص اور کمی ہے تو ہمیں ہر انسان نامکمل اور برا دکھائی دے گا۔

اس لیے اگر ہم خود پر توجہ دینا شروع کر دیں تو ہمیں دوسروں کے عیب تلاش کرنے کا وقت ہی نہیں ملے گا۔ جو لوگ اپنی غلطیوں کو نظر انداز کر کے ہر وقت معاشرے اور لوگوں کو کوستے رہتے ہیں انھیں ہر چیز میں نقص ہی نظر آتا ہے۔ اس لیے دوسروں کی فکر چھوڑیں بلکہ خود کی اصلاح کا سفر شروع کریں۔

بہترین سفر خود شناسی کا سفر ہے۔ دیکھیں کہاں کمی، نقص اور عیب ہے اور کہاں تعمیر کی ضرورت ہے۔ سو اپنی ذات کے خلاء کو پر کیجئے۔ ہم دوسروں کے عمل پر جوابدہ نہیں بلکہ ہم سے ہمارے عمل کے بارے میں پوچھا جائے گا اور یہ اٹل حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں