"قبول کرنا سیکھیں" 152

“قبول کرنا سیکھیں”

“قبول کرنا سیکھیں”

ازقلم : زینب انعام
آپ نے کھانا بنایا اور کسی نے غلطی سے گرا دیا ، مہمان آنے والے ہیں ، گیس بھی چلی گئی ہے ، باہر سے منگوانے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں

اب یہ ایک ایسی سیچویشن ہے جس میں بنتا ہے کہ غمگین ہوا جائے

لیکن ٹھہریے ۔۔۔ ایک منٹ رکیں

کیا آپکو نہیں پتا تھا کہ مہمانوں نے آنا ہے ؟
( پتا تھا)

کیا آپ نے ان کے لیے پورے دل سے کھانا نہیں بنایا تھا ؟
(بنایا تھا)

کیا آپ نے اپنی محنت میں کمی چھوڑی تھی؟
(نہیں)

کیا آپ کو وہ مہمان پسند نہیں تھے اور آپ چاہتی تھیں کہ وہ نہ ہی آئیں؟
(بلکل نہیں بلکہ وہ بہت پسند تھے )

کیا کھانا گرانے والے نے جان بوجھ کر گرایا ہے؟
(نہیں اس سے غلطی سے گرا ہے اس کی نیت یہ نہیں تھی)

یعنی آپ نے تو کہی سے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی آپ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہیں سکتیں تھی آپ نے اپنا best دیا لیکن پھر بھی کھانا ضائع ہو گیا تو سمجھ جائیں کہ “تقدیر میں ایسا ہی ہونا تھا”
آپ روئیں ، ہنسئں ،غم کریں یا غصے سے گھر سر پر اٹھا لیں “آپ کے ساتھ یہی ہونا تھا”

وہ کھانا نہ آپ کی قسمت میں تھا نہ ہی وہ رزق مہمانوں کی قسمت میں تھا
اور جو تقدیر میں نہ ہو وہ نہیں ملا کرتا چاہے آپ جو مرضی کر لیں ( دعا سے تقدیریں بدل جاتی ہیں لیکن اگر وہ چیز آپ کے لیے بہتر ہو تب ورنہ وہ دعائیں آخرت کے لیے save ہو جاتی ہیں)
کیونکہ ملتا وہی ہے جو انسان کے لیے بہتر ہوتا ہے
وہ کھانا آپ میں سے کسی کے لیے بہتر تھا ہی نہیں

تو اس غم کو آپ کو خوشی سے یا ناخوشی سے مگر قبول کرنا ہی ہوگا
انسان کی جنگ انسان سے تو ہو سکتی ہے لیکن کیا ہم اللہ تعالیٰ سے مقابلے کا سوچ سکتے ہیں ؟؟؟
سو جو ہو گیا اسے ہونا ہی تھا اب سوچیں یہ کہ آگے کیا کرنا ہے
ٹیسٹ ہماری reactions کا ہی تو ہے کہ فلاں وقت میں ہم کرتے کیا ہیں اور وہی لمحہ امتحان کا لمحہ ہوتا ہے
انسان روئے، دوسروں پر الزام لگائے، ناشکری کرے یا پھر صبر کرے اور آگے بڑھ جائے سچ تو یہی ہے کہ “کھانا اب ضائع ہو چکا ہے”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں