140

سیاسی بلوغت کے اشارے !

سیاسی بلوغت کے اشارے !

ُٓپا کستان کا معاشی استحکام ،سیاسی استحکام سے جڑا ہے ،یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اہل سیاست میں کوئی سنجیدہ پش رفت دکھائی نہیں دیے رہی تھی،لیکن گزشتہ روز پاک چین اقتصادی راہداری فورم پر سیاسی جماعتوں کے مشترکہ مشاورتی اجلاس نے سب کو ہی حیران کر کے رکھ دیا ہے ،یہ اہل سیاست کی جانب سے یکجہتی کا اظہار سیاسی بلوغت کا اشارہ ہے کہ جس کی اشد ضرورت کا احساس ایک عرصے سے دلایا جارہا تھا،اس حساس کو جگانے اور اس پر عمل درآمد کرانے میں کچھ دیر تو لگی ہے،

لیکن اس کے بعدجن اچھے نتائج کی توقع کی جارہی ہے،اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا ، کیو نکہ اس بمشاورت کے پیچھے سرگراداں قوت ہی بہتر نتائج دلاسکتی ہے اور پا کستان میں استحکام لاسکتی ہے ۔
یہ بات کوئی مانے نہ مانے ،لیکن یہ حقیقت ہے کہ اہل سیاست بیٹھے نہیں ،بیٹھائے گئے ہیں ، تاہم پاکستان کے مفادمیں اہل سیاست سے ایسی ہی ہم آہنگی کا تقاضا کیا جارہا تھااورمطالبہ کیا جارہا تھا کہ سیاسی جماعتیں اپنے نظریات اور سیاست کے دائرے میں رہتے ہوئے اصولی اختلاف ضرور رکھیں ، ایک دوسرے پر تنقید کریں‘ لیکن ملکی مفاد کی خاطر آپس میں اتفاقِ رائے ضرور ہونا چاہیے

،یہ ملک میں جمہوری روایت کے استحکام کا موجب ہو سکتا ہے اور سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے مطابق اپنا کردار بھی ادا کرسکتی ہیں، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا جارہا تھا ، کیو نکہ اہل سیاست کی پشت پناہی کر نے والے چاہتے تھے نہ ہی اہل سیاست اُن کی مرضی کے خلاف ایسا کچھ کر سکتے تھے، یہ اُن کی ہی من منشاء ہے کہ ایک جگہ نہ بیٹھنے والے والے باہمی مشاورت کرتے دکھائی دیے ہیں ۔
یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ کسی ایک موقع پر ہی اہل سیاست مل بیٹھے ہیں تو آئندہ بھی مل بیٹھ سکتے ہیں ، لیکن اس کیلئے طاقتور حلقوں کو ہی کوئی کردار ادا کر نا ہو گا ، اس کا تقاضا بیرونی دنیا بھی متعدد مواقع پر کررہی ہے ، دوست ممالک اور سرمایہ کار بھی پاکستان میں سیاسی انتشار میں کمی دیکھنا چاہتے ہیں، کیو نکہ اس کے بغیر پا کستان میں سر مایہ کاری ممکن ہے نہ سر مایہ کار کوئی رسک لینے کیلئے تیار ہے، یہ صرف ہماراہی معاملہ نہیں ،دنیا بھر میں جہاں کہیں سیاسی انتشار پایا جاتا ہے،

سرمایہ کاری وہاں کا رخ نہیں کرتی ہے‘ اس سے قطع نظر کہ ملک میں وسائل اور ترقی کے امکانات جو د ہیں،اس لیے ضروری ہے کہ ملک عزیز کے سیاسی رہنما اتفاقِ رائے اور دیرپا ملکی مفادات کو مد نظر رکھیں اور اگراس کیلئے کسی کو محدود سیاسی مفادات کی قربانی دینی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کرے، کیو نکہ اس ملک کے ساتھ ہی سب کچھ ہے ،اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں رہے گا ۔
اگر دیکھا جائے

تواہل سیاست اور اہل ریاست دونوں ہی مفاہمت کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن اس مفاہمت کی گھنٹی کو اپنے گلے میں ڈالنے کیلئے کوئی تیار ہے نہ ہی دوسرے کے گلے میں ڈال رہا ہے ، کیو نکہ ہر ایک کی ذاتی انااور ذاتی مفادات آڑے آتے ہیں ، اس ذاتیات کے حصار سے نکلنے کا پاک چین پولیٹکل پارٹیز فورم نے ایک موقع فراہم کردیا ہے ، اس فورم پر بڑی دیر بعد اہل سیاست مل بیٹھے ہیں

تودیگر فورم پر بھی مل بیٹھ سکتے ہیں ،اگر نہیں بیٹھتے تو ایک بار نہین ،بار بار بیٹھایا جاسکتا ہے،انہیں مفاہمت کیلئے منوایا جاسکتا ہے، یہ جن کی بات مانتے ہیں ،انہیں کبھی انکار کر سکتے ہیں نہ ہی کبھی ناراض کر سکتے ہیں ، کیو نکہ اُن کی رضا مندی میں ہی ان سب کی بقاء ہے۔
اہل سیاست کو اپنے سر پرستوں کی رضا کا خیال کرتے ہوئے، اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ سیاسی اتفاقِ رائے صرف سی پیک کی ہی ضرورت نہیں، بلکہ دیگر قومی معاملات کیلئے بھی ضروری ہے

،اہل سیاست کب تک دوسروں کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے اور ان کے ہی اشاروں پر اُٹھتے بیٹھتے رہیں گے ، اہل سیاست نے قومی معاملے پر جس طرح یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی بلوغت کا اشارہ دیا ہے،اس طرح ہی خلوصِ نیت کے ساتھ باہمی سیاسی پیش رفت کیلئے خودہی کوئی عملی اقدام اُٹھاناچاہئے

، اگر فوری طور پر کوئی بڑی چھلانگ نہیں لگا سکتے اور ان کی مجبوریاں آڑے آتی ہیں توچھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے ہی اپنے فاصلے کم کرنے کی کوشش کریں، کیو نکہ اہل سیاست میں فاصلے کم ہوں گے تو مداخلت میں بھی کمی آئے گی اور جب مداخلت کم ہو گی تو مفاہمت بڑھے گی ،اس مفاہمتی عمل سے جہاں سیاسی انتشار کم ہو گا،وہیں سیاسی استحکام آئے گا اور ملک معاشی استحکام کی جانب بڑھ پائے گا،ورنہ سیاسی بلوغت کے سارے ہی اشارے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں