وقعہ غدیر
ارم سعید (راولپنڈی)
وقعہ غدیر
ہجرت کے دسویں سال پیغمبر اکرمؐ نے حج بیت اللہ کا ارادہ فرمایا۔ چونکہ یہ حج پیغمبر اکرمؐ کا آخری حج تھا اسلئے اسے بعد میں حجۃ الوداع کا نام دیا گیا۔ تمام مسلمانوں کو اطلاع دی گئی کہ پیغمبر اس سال حج پر تشریف لے جا رہے ہیں اسلئے تمام مسلمانوں سے بھی حج پر جانے کیلئے کہا گیا۔ بہت سارے مسلمانوں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اس حج میں شریک ہونے کیلئے مدینہ جمع ہوئے۔ یوں آپؐ 25 ذوالقعدہ کو مدینے سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔
امام علیؑ بھی اسی سال رمضان کو کفار کے ساتھ جنگ کیلئے یمن میں مذحج نامی مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ دشمن کو شکست دینے اور جنگی غنائم اکھٹا کرنے کے بعد آپؑ بھی رسول اکرمؐ کے حکم سے اعمال حج کی ادائیگی کیلئے مکہ تشریف لائے۔
روز عرفہ کو پیغمبر اکرمؐ نے حاجیوں کے درمیان ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اہم امور منجملہ مسلمان کی جان و مال کا احترام، امانتداری، ربا کی حرمت، عورتوں کے حقوق اور شیطان کی اطاعت سے پرہیز وغیرہ پر سیر حاصل بحث فرمائی۔
حج کے مراسم سے فارغ ہونے کے بعد تمام مسلمان مکہ سے خارج ہو کر اپنے اپنے سرزمینوں کی طرف روانہ ہوئے لگے۔ حاجیوں کے یہ قافلے ذوالحجہ کو غدیر خم نامی جگہے پر پہنچے۔ غدیر خم، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہے کا نام ہے جو جُحفہ سے دو کلومیتر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں سے مختلف راستے جدا ہوتے ہیں۔ جب رسول اکرمؑ کا قافلہ غدیر خم پہونچا تو فرشتہ وحی سورہ مائدہ کی آیت نمبر 67 یا أَیهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَیک مِنْ رَبِّک وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللَّهُ یعْصِمُک مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لایهْدِی الْقَوْمَ الْکافِرینَ اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے
اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔ اور اسی سورے کی آیت نمبر 3 الْیوْمَ یئِسَ الَّذینَ کفَرُوا مِنْ دینِکمْ فَلاتَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ الْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکمُ الْإِسْلامَ دیناً آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو -آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔
لے کر رسول اکرم ؐ پر نازل ہوا اور آپؐ کو حضرت علیؑ کی ولایت و امامت کا اعلان کرنے پر مأمور کیا۔ اس موقع پر رسول اکرمؐ نے آگے جانے والے قافلوں کو رکنے اور پیچھے والے قافلوں کی انتظار کا حکم دیا۔ نماز ظہر کا وقت ہوا تو رسول اکرمؐ کی امامت میں نماز ظہر ادا کی گئی اس کے بعد اونٹوں کے پالانوں سے آپ کیلئے ایک ممبر تیار کیا گیا جس پر چڑھ کر آپؐ نے ایک تاریخی خطبہ دیا جس میں آپ نے فرمایا کہ میں عنقریب تمہارے درمیان سے جارہا ہوں لیکن میں تمہارے درمیان دو گرانبہا چیزیں بطور امانت چھوڑے جا رہا ہوں
ان میں سے ایک کتاب خدا اور دوسری میری عترت ہیں۔ اس موقع پر آپ نے لوگوں کے جانوں پر خود ان سے زیادہ آپ کو اختیار ہونے کا اقرار لیا۔ اس کے بعد حضرت علیؑ کو اپنے پاس ممبر پر بلایا اور حضرت علی کا ہاتھ بلند کرکے لوگوں کو دکھا کر فرمایا:مَنْ کُنْتُ مَولاهُ فَهذا عَلِی مَولاهُ ترجمہ: جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہیں۔ اس کے بعد حضرت علیؑ کے دوستوں کے حق میں دعا اور ان کے دشمنوں کے حق میں بد دعا فرمائی۔ اس وقت حسان بن ثابت نے آپؐ کی اجازت سے اس واقعے کے بارے میں ایک شعر کہا۔ اس کے بعد خلیفہ دثانی نے اس مسئلے پر امام علیؑ کو مبارک باد دیا۔