کچھ بڑاہی ہو نے والا ہے!
ملک کے حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں ، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ حالات بہتر کر نے کی کوشش کرے ،غریب عوام کو مہنگی بجلی ، آضافی ٹیکسوں کے عذاب سے نجات دلائے ،عوام کو رلیف دینے کی کوشش کر ے ،، لیکن حکومت اپنے مخالفین کو دبانے اور دیوار سے لگانے میں ہی لگی ہوئی ہے ، اپوزیشن قیادت کے بیانیہ کے پیچھے ہی چلے جارہی ہے ،بانی تحریک انصاف ایک بیان دیتے ہیں اور حکومت کے وزراء کی بوگلاہٹ میں دوڑیں لگ جاتی ہیں ، ایک کے بعد ایک پر یس کانفرنس ہونے لگتی ہے
، اس بیان پروزیر دفاع سے لے کر وزیر اطلاعات تک سارے ہی اپنے خیالات کا اظہار کر نے لگتے ہیں اور یہ اگلے بیان آنے تک سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے ، بانی تحریک انصاف نے پابند سلاسل ہو کر بھی حکومت کی نیدیں حرام کررکھی ہیںاور حکومت اپنی کار کر دگی دکھانے اور بتانے کے بجائے بانی پی ٹی آئی کی مالاہی جپنے میں ہی لگے ہوئے ہیں ۔
یہ بات کوئی مانے نہ مانے ، مگراس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کو مقبول سے مقبول تر بنانے میں اتحادی حکومت کا بڑا ہی ہاتھ رہا ہے اور یہ سلسلہ رک نہیں پارہا ہے ، بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہی ہورہا ہے ،اتحادی حکومت بانی پی ٹی آئی کے حصار سے نکل پارہی ہے نہ ہی کوئی اپنا بیانیہ بناپارہی ہے ،حکومت کے وزراء کی صبح بانی پی ٹی آئی سے شروع ہو کر عمران خان پر ہی شام ہوتی ہے
، اس کے بعد کہاجاتا ہے کہ تحریک انصاف کو بیرونی سپورٹ حاصل ہے ، جبکہ تحریک انصاف کو بیرونی نہیں ،اندرونی حکومت کی ہی سپورٹ حاصل رہی ہے ، اتحادی حکومت ہی غیر ارادی طور پر دن رات ان کی تشہیر کر کے عوام میں ہی نہیں ،بیرونی دنیا میں بھی مقبول بنائے جارہی ہے۔
اتحادی حکومت کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا ہے کہ بانی تحریک انصاف کا مقابلہ کیسے کیا جائے ، حکومت کے وزراء دن رات ان کے خلاف بیان بازیاں کر کے سمجھتے ہیں کہ عوام میں ان کی مقبولیت کم ہو جائے گی تو یہ خام خیالی خود کو دھوکہ دینے کے ہی مترادف ہے ، جبکہ ان کے اپنے ہی گھروں سے آوازیں اُٹھنے لگی ہیں
کہ آئندہ حکومت تحریک انصاف کی ہی ہو گی ،کیو نکہ تحریک انصاف کو جتنی شدت سے دبایا جارہا ہے ، اس کے ردعمل میں اتنا ہی اُوپر اُٹھ رہی ہے ، عوام کے اندرحکومت مخالف غصہ پایا جاتا ہے ، عوام سمجھتے ہیں کہ عوام کے فیصلے کے بر خلاف آزمائے ہارے لوگوں کو لایا گیا ہے، انہیں عوام قبول کررہے ہیں نہ ہی ان کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں ، عوام کی حمایت کے بغیر حکومت زیادہ دیر چل سکتی ہے نہ ہی اپنی ساکھ بحال کر سکتی ہے ، اس بے اختیار حکومت کو آج نہیں تو کل جانا ہی پڑے گا اور اس کے آثار بھی نظر آنے لگے ہیں۔
اس حکومت کی بد حواسیاں بتارہی ہیں کہ اس کے پیروں تلے سے زمین نکلتی جارہی ہے ، اس کا ندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت اپنی کار کر دگی دکھانے کے بجائے نوں مئی کا ہی سہارا لیے جارہی ہے ، اس پر ہی اپوزیشن کو نشانہ بنانا کر وقت گزاری کررہی ہے ، اس کے پاس کوئی پلان ہے نہ ہی کوئی مو ثر حکمت عملی دکھائی دیے رہی ہے ، اس کے پاس بانی تحریک انصاف کے ہر نئے بیان پر بات کر نے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ، اس کا ہی سہارا لیا جارہا ہے ، اس کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، بانی پی ٹی آئی نے کوئی نئی باتیں نہیں کررہے ہیں ، یہ باتیں پہلے بھی کر چکے ہیں
کہ اس شرط پر معافی مانگنے کو تیار ہیں کہ انہیں ثبوت فراہم کیے جائیں کہ ان کی پارٹی کے کارکنان نومئی کو ہونے والی توڑ پھوڑ میں ملوث تھے، اس پر حکومت اپنی سیاست چمکانے میں لگی ہے کہ بانی پی ٹی آئی معافی مانگنے پر مجبور ہوگئے ہیں ،جبکہ اس کا مقصد پارٹی کے قیدیوں کی رہائی یقینی بنانابھی ہو سکتا ہے۔
اس ملک میں کچھ پردے پر اور بہت کچھ پس پرداہ چلتا ہی رہتا ہے ، اس وقت بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ،لیکن اس
جاری سیاسی کھیلکے باعث حکومت کی تبدیلی کے خدشات پیدا ہونے لگے ہیں، بنگلا دیش کا موجودہ بحران ہمارے سامنے ہے،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب عوام مخالف حکومت عوام کے ساتھ اپنے سیاسی مخالفوں کو بھی شکست دینے کے لیے غیر سیاسی حربے اختیار کرے گی تو اس کا ردعمل بڑی شدت سے بھی آسکتا ہے، اس لیے اہل سیاست اور امور سیاست کے تمام کردار اجتماعی خودکشی سے گریز کریں اور سیاسی تبدیلی کے لیے جمہوری راستے کو شفاف بنائیں،غیر سیاسی ریاستی ادارے بھی اپنے فرائض کو پہچانیںاور اپنی آئینی حدود کے اندر رہیں، کیو نکہ ریاست کے تمام اداروں کی اخلاقی ساکھ کے بغیر طرز حکمرانی کی اصلاح کبھی نہیں ہو سکتی ہے،ہر ایک کو اپنی اصلاح کے ساتھ اپنا حقیقی کردار بھی ادا کر نا ہو گا
، عوام کوبالا امتیاز شفاف حق رائے دہی دینا ہوگا اور عوام کا ہی فیصلہ ماننا ہو گا ، ورنہ اس برے حالات میں کچھ بڑا ہی ہونے والا ہے،ایک ایسا عوامی ریلہ آنے والا ہے کہ اس کی زد سے کوئی بچ پائے گا نہ ہی کہیں ہیلی کا پٹرپر بھاگ پائے گا۔