انصاف میں تاخیر انصاف کا گلا گھوٹنے کے مترادف عمل ہے
۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707
حتمی انصاف کے بجائے فریقین میں تصفیہ بہت سارے مسائل حل کے لئے آسان حل ہے
گناہ یا جرم پہلی مرتبہ نادانستگی میں سرزد ہوجاتا ہے گویا صاف ستھرے کپڑوں پر ایک گندے داغ جیسا ہوتا ہے اگر فوراً معافی تلافی استغفار سے پاک و صاف نہ کیا جائے تو اس گناہ یا جرم کی سزا کی حدت کم ہوتے ہوتے مزید گناہ در گناہ ہوتے، بالکل ہی ختم ہوجاتی ہے۔ بالکل جیسے عام مزدور پیشہ انسان کتنے بھی صاف ستھرے کپڑے پہن لے، پہلی مزدوری کرتے وقت کپڑے میلا یا داغدار ہونے کا احساس، اسے ہوگا
مزید کام کرتے کرتے کپڑے مزید داغ دار یا میلے ہونے کی فکر سے وہ آزاد ہوتا چلا جائیگا۔اور ایک وقت ایسا آئیگا وہ ان میلے کپڑوں کو صدا صاف کرنے کے بجائے، مزدوری کے وقت انہیں پہننے لگے گا۔ یہی کچھ ہم انسانون کے ساتھ ہوتا ہے، گناہ جیسے جیسے بڑھتے جاتے ہیں ہم نہ صرف نڈر اور بے خوف ہوتے جاتے ہیں بالکہ اس گناہ یا جرم کی اخروی سزا سے بچیں یا نہ بچیں لیکن،دنیوی سزا سے بچنے کے ہم ماہر بن ہی جاتے ہیں۔ایسے میں مجرم جہاں بچ جاتے ہیں وہیں پہلے سے ستائے ہزیمت زد مفلوک الحال مظلوم نقصان ہی کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ اور انصاف ملنے میں تاخیر ایسے متاثرین کو قبل از مرنے پر مجبور کیا کرتی ہے۔ اسی لئے قانون و عدلیہ کے سچے محافظ جس معیار کے وہ مخلص ہوتے ہیں اس کا توڑ نکالتے ہوئے مظلوم کی داد رسی کی کوشش کرتے پائے جاتے ہیں۔
آج سے بارہ ایک سال قبل ہم کچھ دوستوں نے سعودیہ میں اشتراکی فنڈ قائم کئے، ایک اچھی تجارت شروع کی تھی لیکن چونکہ سعودی قانون کی رو سے، اجنبی ان ایام، سعودیہ میں تجارت کے لئے، کسی سعودی نام کے محتاج ہوا کرتے تھے، ہمارا منتخب کردہ سعودی بہت بڑا ریٹائرڈ آفیسر ہونے کے ناطے،اسکے اثر رسوخ سے ہماری تجارت کے لئے مفید تر ہونے کے بارے میں, ہم نے جو سوچا تھا، وہیں مشہور عربی مقولہ”طویل احمقا” الا عمر، قصیرا” ذکیا” الا علی” اس سعودی کی ساڑھے چار فوٹیہ ہئیت اسکی حرامی پن کی حد تک ذکئیت کی وجہ ہمیں لے ڈوبی۔اور وہ سعودی آفیسر ہماری تجارت شروع ہونے سے پہلے ہماری تجارت پر قبضہ جما چکا تھا۔
ان ایام عربی اردو مترجم کسی ندوی مولانا کی معرفت، کچھ قانونی مشورے کے لئے، اس وقت کے ریٹایرڈ چیف جسٹس شیخ عجلان سے وقت لئے، ہم انکے گھر پہنچے۔ شیخ محترم اتنی بزرگ شخصیت تھی کہ چیونٹیاں بھی انکے پاؤں نیچے آجائیں تو شاید دب کر مرنے سے بچ جائیں۔ ہمارا معاملہ سننے کے بعد انہوں نے کہا کہ ایسے لوٹنے والے چونکہ انتہائی شاطر ہوتے ہیں،اس لئے وہ عموماً کوئی ثبوت نہیں چھوڑتے ہیں
۔ اسی لئے سعودی محکمہ عدل و انصاف نے، عدالت سے رجوع ہونے والے تمام معاملات ابتداء ہی میں، اللہ اور اللہ رسول ﷺ کے اقوال سناکر، نار دوزخ کا خوف دلاکر،حلف یمین (اللہ کی قسم) دئیے، فریقین کے درمیان مفاہمتی انداز مسئلہ حل کرنے کی سعی کرنے کا وطیرہ اپنائے ہوئے ہے۔ اگر ہمارا فریق کفیل سعودی اس پر راضی ہوجائے تو تمہارے لئے بہتر رہے گا پورا نہ صحیح نصف کے کم و بیش خسارے کی بھرپائی ہوسکے گی۔ اور اگر وہ بضد رہا تو معاملہ عدالت میں لمبا چلےگا اور تبوتوں کے پیش نظر ہی مسئلہ حل ہوپائے گا
جس میں ہمیں کچھ ملنے کی امید کم ہے۔آج عالم کی سب سے بڑی جمہوریت 1400 ملین بھارت کے سب سے بڑی عدلیہ کے چیف جسٹس ڈی وائے چندرچوڈ کے اپنے تجربہ کی روشنی میں کہا بھارتیہ عدلیہ میں زیر سماعت معاملہ سالوں لمبے عرصے تک کھینچ لئے چلنے کی وجہ سے لوگ انصاف سے مایوس عدلیہ کی نگرانی ہی میں انصاف کے بجائے تصفیہ کے متمنی پائے جاتے ہیں۔ عالم کی سب سے بڑی جمہوریت 1400 ملین آبادی والے ہزاروں سالہ آسمانی ویدک سناتن دھرمی ملک میں عدل و انصاف سے مایوس عوام کی اکثریت کی طرف انصاف کے بجائے تصفیہ کی آتی مانگ کے چلتے اور وہ بھی چیف جسٹس آف انڈیا کی طرف سے اسے ظاہر کرنے کے بعد ہمیں دس پندرہ سال قبل ہمارے ساتھ پیش آیا واقعہ اور سعودی محکمہ عدل و انصاف کی دوڑ اندیشانہ فریقین درمیان تصفیہ والی حکمت عملی پر جہاں داد دینے کا جی کرنے لگا وہیں
محکمہ عدل و انصاف ھند کے ذمہ دار وکلاء و جج صاحبان سے بھی درخواست ہے کہ بھارت میں بھی عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہی شروع ہی میں دونوں فریقین میں تصفیہ کروانے کی کوئی شکل بھی بھارتیہ محکمہ عدلیہ کی طرف سے شروع کی جائے اس سے لاکھوں کروڑوں معاملات جو عدلیہ میں التوا میں سالوں سے پڑے ہیں انہیں فریقین کی رضامندی کے ساتھ آپس میں تصفیہ کروا عدلیہ کی مہر کے ساتھ حل کروایا جائے اس سے بھارتیہ عدلیہ پر پڑنے والا بوجھ بھی کم ہوگا اورہزاروں لاکھوں فریقین کو بھی انکے معاملات جلد حل خراٹے ہوئے انہیں ایک حد تک سکون و اطمینان دلوایا جاسکے گا۔وما علینا الا بلاغ