95

اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام وقت جیسے اسلامی اقدار،کیااب بھی ہم میں موجود ہیں؟

اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام وقت جیسے اسلامی اقدار،کیااب بھی ہم میں موجود ہیں؟

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

تجارت و معشیت میں بے ایمانی، ڈنڈی مار دھوکے باز تجارتی سرگرمیاں، وعدہ وفائی میں دانستہ کوتاہی، جنسی بے راہ روئی والی کوتاہیاں جیسے، حقوق العباد میں ہم مسلمانوں کی دانستہ کی جانے والی کوتاہیاں، ہمیں نماز، روزے جیسے حقوق اللہ سے بھی دور کیا کرتی ہے۔ بھلےہی ہم خود سےحقوق اللہ اعمال سے دور ہوجائیں یا حقوق اللہ اعمال ادا کرنے میں، حکومت وقت سے، ہمیں پریشانیوں میں مبتلا ہی کیوں نہ کیا جائے؟ یہ سب آللہ رب العزت کی مرضی ومنشاء کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔

ہم مسلمانوں میں حقوق العباد کی پامالی عروج پر ہو تو،یقیناً وہ رب دو جہاں،حقوق اللہ سے ہمیں کوتاہ تر کرنے، ہم پر ظالم و جابر حکمران مسلط کئے، حقوق اللہ کی ادائیگی کے سلسلے میں ہمیں موجود سہولیات سے ماورا کئے، وہ رب رحمن و رحیم ہمیں اپنے سے دور کیا کرتا ہے۔
مابعد وفات رسول اللہ ﷺ ہمارے اسلاف صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین، جب بھی انہیں کوئی دنیوی تکلیف سرزد عمل ہوجاتی تھی تو، وہ اپنے دینی اعمال کوتاہیوں کا محاسبہ کیا کرتے تھے۔ اور اپنے میں موجود کمیوں خامیوں کو دور کیا کرتے تھے

۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر رض کے زمانہ خلافت، مسلم افواج کافروں کے ایک قلع بند افواج کو کئی دنوں سے محاصرہ کئے ہوئے تھے۔ چونکہ قلع بن افواج کفار ہر طرح کی سہولیات سے لیس تھے اور قلعہ کے اطراف محاصرہ کی ہوئی مسلم افواج،وقت کے ساتھ، نہ صرف تھک رہے تھے، بلکہ حربی اعتبار ہلکان بھی ہورہے تھے اور مکرر، امیرالمومین سے اضافی افواج کمک کی مانگ کررہے تھے۔ کہ اچانک حضرت عمر رض کی طرف سے،کمک کے ساتھ ایک خط بھی امیر لشکر کے نام موصول ہوتا ہے۔

خط میں لکھا تھا “مسلم افواج اپنی فوجی طاقت کے زور پر فتح حاصل کرنے کے بجائے عموماً،اپنے اللہ کی مدد و نصرت ہی سے فتح یاب ہوا کرتے ہیں۔ اور اللہ رب العزت کی طرف سے فتح یا نصرت، اس وقت موقوف ٹہرائی جاتی ہے جب مسلمانوں میں، اجمالی طور یا تو کوئی کوتاہی،لغزش، انکی عملی زندگی کا حصہ نہ بن جائے؟

یا ان کے درمیان سے کوئی نیک عمل جیسے سنت ہی اٹھا نہ لی جائے” اس لئے خلیفہ المسلمین حضرت عمر رض، امیر لشکر حرب کو حکم دیتا ہے کہ “تمام صاحب علم و حلم،ذمہ دارصحابہ کرام مل بیٹھ، آپس میں مشورہ کریں، اپنے اعمال کا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ ان کی عملی زندگیوں میں،کوئی’لغرش عمل’ سرایت تو نہیں کرگئی ہے؟ یا انکے درمیان سےکوئی ‘سنت عمل آوری’ رہ تو نہیں گئی ہے”؟

بھارت کی ہم 300 ملین مسلمانوں پر ہی کیوں اپنے اللہ کی عبادت بندگی کے راستے تنگ گئے جارہے ہیں۔ابن بھٹکلی
امیر المومنین حضرت عمر رض کے حکم پر،تمام صحابہ مل بیٹھتے ہیں مشورہ ہوتا ہے اور اپنے اعمال کا محاسبہ ہوتا ہے تو یہ طہ پایا جاتا ہے کہ مدنی زندگیوں والی مسواک کی سنت،حربی مشغولیات کی وجہ،مسلم لشکر سے تقریباً غائب یا چھوٹ سے گئی ہے، مشورے بعد امیر لشکر نے کچھ ساتھیوں کو حکم دیتےہیں کہ دوسری صبح بعد نماز فجر، ماقبل طلوع افتاب،پاس کے جنگل سے درخت کی بہت ساری چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں کاٹ لائی جائیں۔اور جب کچھ ساتھی بہت ساری درختوں کی ٹہنیاں لے آتے ہیں

تو حکم سالار مسلم افواج،تمام اسلامی لشکر، ایک ساتھ درختوں کی ٹہنیاں کاٹ کاٹ، مسواک تیار کئے، مشغولیت حرب کی وجہ ان کے درمیان سے تقریباً نکلا، ‘عمل مسواک’ ایک ساتھ مسواک کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ویسے تو مسواک کرنا ایک سنت اور معمولی عمل تھا،لیکن اس کے اثرات، اللہ رب العزت نے، قلعہ بند دشمن افواج پر یوں ڈالے کہ قلع پر متعین دشمن افواج کے جاسوسوں نے، قلع کی فصیل کے اوپر سے،تمام مسلم افواج کو، صبح صبح ایک ساتھ مسواک کرتے دیکھا تو، ان پر ایسا رعب پڑگیا کہ انہوں نے، اپنے سردار افواج دشمن کے پاس جاکر،کچھ اس انداز،اس بات کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ بتادیا

کہ، سابقہ کئی دنوں سے محاصرہ سے تھکی تھکی پس مردہ افواج دشمن، آج اپنےکچھ سپاہی پاس کے جنگل بھیج، لکڑیاں کاٹ لائے، مسواک کے ڈنڈیان تیار کئے، علی الصباح سب مل کر،زور زور سے،ایسے اپنے دانت صاف کررہے ہیں جیسے وہ آج پوتی طاقت کے ساتھ قلعہ پر یلغار کئے،نہ صرف فاتح قلعہ ہوجائیں گے بالکہ ہمیں کچا ہی چبا جائیں گے۔ مسلم افواج سے، مصروفیت جنگ و جدال غیر دانستہ ہی ان کے درمیان سےتقریباً معدوم، ایک معمولی سنت مسواک پر، اجتماعی عمل آوری سے، اللہ رب العزت نے، قلع بند دشمن کافر افواج پر، ایسا دھاک و ڈر بٹھایا کہ،انہوں نے بعد مشورہ، اپنے سفیر مسلم افواج سربراہ کے پاس بھیج، خود کی پسپائی کوتسلیم کرتے ہوئے،اسلامی افواج کی تابع داری قبول کرلی تھی

اور یوں بنا جنگ و جدال، قتل و گری اور کسی بھی مسلم افواج شہادت کے بنا ہی،صرف ایک سنت عمل مسواک، اپنی عملی زندگیوں میں لانے ہی کی وجہ سے، کئی دنوں سے قلع بند، ایک حد تک پس مردہ افواج مسلم کو، غیر متوقع دشمن پر غلبہ و فتح دلوائی گئی تھی۔اسلامی تاریخ میں ایسے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ لیکن آج کے ہم نام نہاد مسلمان، اپنے اسلاف کے تابناک کارناموں سے ماورا ،یہود و نصاری کی نقل کرتے،گویا یہود و نصاری ہی کی طرح جئے جارہے ہیں۔ آج ہم مسلمانوں میں، خصوصا خاتم الانبیاء سرور کائینات رحمت العالمین محمد مصطفیﷺ کی طرف سے ماقبل نبوت و رسالت، چالیس لمبے سالوں تک عمل کردکھائے، اور بعد نبوت و رسالت ہمارےمسلم اسلاف میں ودیعت کئے گئے،

اعمال صالح معاشرت، امانت داری، دیانت داری،وعدہ وفائی کا پاس ولحاظ، تو ڈنڈی مار تجارت سے اجتناب، بڑوں کااحترام تو چھوٹوں سے شفقت، اسلامی اقدارعین مطابق، غروب آفتاب بعد شب کی ابتداء ہونے کو تسلیم کرتے، بعد العشاء حوالے بستر ہوتا انکا عمل،اور شب کے تیسرے پہر تہجد کے لئے اٹھتے، نماز فجر ادائگی بعد طلوع آفتاب تک،رب رحمن و رحیم کی حمد و ثناء میں مشغول رہتے، رسول اللہ ﷺ کے فرمان، طلوع آفتاب قبل یا بعدآسمان کی نچلی سطح تک فرشتے کے اتر آتے، انسانیت کے لئے، رزاق دوجہاں کی طرف سے تقسیم ہوتی رزق کی ندا لگائےجانے کی، رسول خدا ﷺ کی بات پر یقین کامل رکھتے ہوئے،

بعد طلوع آفتاب حصول رزق کے لئے گھروں سے نکل جانے کی عادت، کیا آج کے نام نہاد ہم مسلمانوں میں موجود ہے؟ یہ تمام اعمال حسنہ ہم میں باقی ہیں اس سے کجا،اللہ کے رسول ﷺ کے سختی سے ہمیں “لا تشرک باللہ” مکرر کہے ،منع کئے اعمال قبیح، ہم نام نہاد اہل سنہ و الجماعہ مسلمانوں میں، ایسے رچ بس گئے ہیں کہ ہم ان اعمال قبرپرستی کو اعمال دین اسلام کی طور ثواب کا کام سمجھ کئے جارہے ہیں

۔ ہم میں سے بعض قبر پرست نام نہاد مسلمانوں نے،اپنے بزرگوں سے الفت محبت کےنام پر، ایسی ایسی مشرکانہ رسوم کو، اپنے دینی عمل کے حصہ کے طور، اپنالیا ہے کہ،ہمارے،کفریہ شرکیہ اعمال خبیثہ سے، یہود و ہنود ھندبھی شرما جائیں اور اقوام کے مقابلے شب گزاری اور دن ڈھلے تک خواب بستر رہنے کی عادت، ہمارے نوجوانوں کو، ایسے اسیر زد کئے ہوئے ہے کہ انہیں، دن بھر سو کر اٹھنے کے بعد،سر شام کچھ ساعتی وقفہ دوران، ڈھیر ساری دولت حصول کی فکر نے، اسلامی اقدار و افکار کو یکسر نظر انداز کئے، حلال و حرام کی تمیز سے ماورا،حصول زر کو انکے لئے آسان کیا ہوا ہے۔ اور اقوام کے مقابلہ تجارت و حصول رزق میں دھوکہ دہی کو،اسلامی معشیتی نظام کا، اٹوٹ انگ جیسے بنادیا ہے

۔ اسلام ہی کے نام پرمعرض وجود تقریباً 95% مسلم آبادی والے پڑوسی ملک پاکستان کی معشیتی منڈی،دھوکہ دہی، ملاوٹ، ڈنڈی مار تجارت، گدھے و کتے کا گوشت بھی بکرے اور گائے کا گوشت بتا دھوکہ دئیے، اپنے ہی مسلمان بھائیوں کوکھلاتےکھلاتے، طبعی مردہ مرغی گوشت بھی ہوٹلوں کو توزیع کئے، ہم مسلمانوں کو ہی مردار مرغی گوشت دھڑلے سے جہان کھلایا جارہا ہے وہیں،غرباء و مساکین کا بھیس بدلے،اپنی مکر آلود فرضی جھوٹی کہانیاں گڑھے، شرفاء قوم و وطن کی طرف سے بھیک مانگنے والی عادت خبیثہ، گویا مسلم معاشرہ کا جزء لاینفک سے بنی ہوئی ہے۔ عوام تو کجا سردار قوم شرفاء،پی ایم شہباز شریف بھی،مجبوری کے نام اپنے عرب ممالک سے بھیک مانگنے کے عمل کو، عوام کے سامنے شرمناک انداز رکھتے ہوئے، اپنی غیور مسلم قوم کو بھیک مانگنے والے قبیح عمل سے گویا روشنائی عادی کروا رہے ہیں۔علماء وقت حاضر، مسلم معاشرے میں ودیعت کر گئے،

ان اعمال خبیثہ سے کیا نابلد ہیں؟ کیا ان علماء کے درمیان چند عالموں کا، جمیعت العلماء ھند و پاک کی سفارشات کے ساتھ ہم مسلمانان ھند و پاک ہی کو دھوکہ دئیے،فرضی مدارس و مساجد کے نام سے، کروڑوں کے چندے وصول ہڑپنے کے معاملات، کیا انکے سامنے نہیں آتے ہیں؟ پھر کیوں اہل سلف و صالحین کے طرز عمل، اپنے مسلم معاشرے میں رائج کردہ ان اعمال خبیثہ سے، مسلم قوم کو آمان میں رکھنے کی فکریں تدبیریں نہیں کی جاتی ہیں۔ جب جب کسی قوم میں عادات خبیثہ و اعمال ممنوعہ کو اجمالی طور اپنایا جانے لگتا ہے

تو رزاق دوجہاں کے رحمن ورحیم والی کی کیفیات جبار وقہارئیت میں تبدیل ہوتے ہوتے، ہم مسلم قوم پرظالم و جابر یا فاسق لٹیرے حکمران مسلط کئے، ہمیں دنیا میں ہی سزآ دئیے راہ راست پر لانے کی سعی کی جانے لگتی ہے۔ اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ پاک پروردگار، ہمیں وقت رہتے، اپنی لغزشوں کوتاہیوں معصیتوں گناہوں سے اجتناب برتنے کی توفیق بخشے اور پھر شرک و بدعات قبر پرستی میں مستغرق،ہم نام نہاد اہل سنہ والجماعہ، نام نہاد مسلمانوں کے بجائے،اپنے رسول خدا خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی ﷺ کے تربیت کئے گئے، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین، تابعین تبع تابعین و دیگر اہل سلف والے سچے پکے دین اسلام پر، جہادی جذبات سے سرشار داعی اسلام ، عملی مسلمانوں میں سے بنائے،وما علینا الا البلاغ

آسام: نماز جمعہ کے لیے دی جانے والی سہولت سرکار نے چلائی قینچی

کینٹین میں سور کا گوشت مگر نمازِ جمعہ پر پابندی آخر مسلمانوں کو کتنا پریشان کیا جائے گا، آئی یو ڈی ایف رکن اسمبلی کا سوال

آسام کے سرکاری ملازمین مسلمانوں کو جمعہ کی نماز دی۔جانے والی سہولیات سے مستشنی قرار
کل کے حسن اخلاق معاشرت عالم کو دعوت دینے والے ہم مسلمان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں