مفاہمت کارگر ہو پائے گی !
ملک میں عدم استحکام سے دوچار ہے اورحکمرانوں کی ترجیحات ایک ہی نکتے کے گرد گھوم رہی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح گلے سے لپٹے ہوئے ایک شخص سے جان چھڑوائی جائے،جبکہ ملک خون کے چھینٹوں سے سرخ ہو رہا ہے ، کچے کے کے ڈاکو قابو آ رہے ہیں نہ ہی پہاڑوں سے آنے والوں کا کوئی توڑ نکالا جا رہا ہے،
اوپر سے پکے کے ڈاکو سارا ملک لوٹ رہے ہیںاور وزیر ڈاخلہ کہتے نہیں تھکتے ہیںکہ یہ سارے معاملات ایک ایس ایچ او کی مار ہیں ،اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر ریاست خوار کیوں ہورہی ہے ؟ یہ سارے معاملات طاقت کے زور پر نہیں ، مل بیٹھ کر ہی حل ہو ں گے اور باہمی مفاہمت سے ہی آگے بڑھنے کا راستہ نکل پائے گا ۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ ملک میں استحکام لانے کیلئے ہر ایک سے مکالمہ کرنا ہی پڑے گا ، اس کے باوجود کہیں کوئی سنجیدگی دکھائی دیے رہی ہے نہ ہی کوئی پیش رفت ہورہی ہے ، حکومت اور اپوزیشن اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ، اپوزیشن مقتدرہ سے مذاکر ات کی خواہاں ہے ،جبکہ حکومت نوں مئی کی آڑ میںاپوزیشن سے مزاکرات کرنا ہی نہیں چاہتی ہے ، کیو نکہ حکومت کومزاکرات میں اپنا اقتدار جاتا دکھائی دیتاہے ، اس لیے مفاہمت کی زبانی کلامی باتیں ہی کی جاتی رہی ہیں ،
لیکن اب بدلتے حالات کے پیش نظر ایک طرف حکمراں اتحاد نے سیاسی قوتوں کے مابین مفاہمت کی کوششیں شروع کردی ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن کی بڑی جماعت تحریک انصاف قیادت نے بھی سمجھ لیاہے کہ حکمراں سیاسی اتحاد کے بجائے مقتدرہ سے مذاکرات پر اصرار جیسے اب تک لاحاصل رہا، ویسے ہی آئندہ بھی رہے گا، لہٰذا باہمی اختلافات کا حل تلاش کرنے کا راستہ سیاسی طاقتوں سے بات چیت کے علاوہ کوئی نہیں ،لیکن دیکھنا ہے کہ یہ مفاہمتی کوشش کار گر بھی ہو پائے گی؟
حکومت اور اپوزیشن اپنے تائیں وکٹ کے دونوں طرف ہی کھیل رہے ہیں ، اتحادی اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کی قیادت سے مل کر جہاں حمایت حاصل کر نے کی کوشش کررہے ہیں ،وہیں تحریک انصاف قیادت بھی مقتدارہ کے ساتھ ایک پیج پر آنے میں کوشاں دکھائی دیے رہی ہے ، ایک طرف مفاہمت کاڈول ڈالا جارہا ہے تو دوسری جانب ایک دوسرے کو گرانے اور دیوار سے لگانے کیلئے پورا زور لگایا جارہا ہے ،
یہ دونوں ہی کسی ایسی مفاہمت کی سیاست کیلئے تیار نہیں ہیں کہ جس کا فائدہ براہ راست دوسرے کو پہنچے، یعنی ہم ریاست کے مفاد سے زیادہ اپنے سیاسی مفاد کی طرف ہی دیکھ رہے ہیں، اس وجہ سے ہی سیاسی اور معاشی بحران بڑھتا جا رہا ہے،اگر ملک میں سیاسی استحکام ہی پیدا نہ کیا گیا تو معاشی استحکام کیسے آئے گا؟ یہ جو باتیں کی جاتی ہیں کہ ہیں کہ موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کیلئے چارٹر آف ڈیمو کر یسی اورچارٹر آف اکانومی کرنا ہوگا ، یہ کبھی ممکن نہیں ہوسکے گا ،کیونکہ سیاسی بحران اور سیاسی کشیدگی کا بڑھتا ماحول ظاہر کرتا ہے کہ ہم مسائل کے حل کی طرف نہیں بڑھ رہے
،بلکہ مسائل میں اور زیادہ خرابی پیدا کرنے کا راستہ اختیار کررہے ہیں،سیاسی قوتیں جب تک اپنا سیاسی مقدمہ مضبوط نہیں کرتیں او ر آپس میںسیاسی اتفاق رائے پیدا نہیں کرتیں، سیاسی بحران کسی صورت ختم نہیں ہو پائے گا۔
اگر دیکھا جائے تواس وقت حالات ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نظر ہی نہیں آرہا ہے، مگر قوموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انتہائی مشکل اورپیچیدہ حالات میں بھی بات چیت کے ذریعے مفاہمت کے راستے نکالے جاتے رہے ہیں،اس لئے افہام و تفہیم کی راہ اختیار کرنے میں تاخیر نہیں کی جانی چاہئے، حکومت نے رانا ثناء اللہ کو محمود خان اچکزئی سے بات کرنے کی ذمہ داری دیے دی ہے،
محمود خان اچکزئی سے درخواست کی گئی ہے کہ براہ راست مذاکرات کیلئے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت سے مشاورت کریں، اگر کھلی بات چیت میں پی ٹی آئی کے تحفظات لاحق ہیںتو تحریک انصاف مذاکرات کیلئے کمیٹی نامزد کرے ،جو کہ پس پردہ ہی بات چیت کر سکے، حکومت اور اپوزیشن کا سیاسی مکالمہ تیزی سے آگے بڑھنا چاہیے اور مل جل کر درپیش مسائل کا ایسا حل نکالنا چاہئے، جو کہ سب کے لئے ہی قابل قبول ہوجائے ،
اس کے ساتھ کوشش کی جانی چاہئے کہ اس بار غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوتوں کو ماضی کی طرح کوئی کردار ادا نہ کرنا پڑے،اس سے پہلے ہی اہل سیاست افہام و تفہیم کے ذریعے اپنے معاملات خوش اسلوبی سے طے کر لیں تو یہ بات ملک کے سیاسی استحکام اور جمہوری مستقبل کے لئے ایک حوصلہ افزا آغاز ثابت ہو سکتی ہے،بصورت دیگر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ،سارے ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیںگے۔