خود کی انانیت کو پس پشت رکھے، میدان کارزار سیاست کے تجربہ کار کی، وقتی امارت میں قائم اتحاد ہی سے، مسلم امہ کا سیاسی وقار بلند و برتر رکھا جاسکتا ہے
ابن بھٹکلی
۔ +966562677707
موجودہ پست تر سنگھی منافرتی سیاسی پس منظر میں، اپنے اسلاف کے تابناک کارناموں کی جولانیوں اور اینے دین اسلام کے جہادی جذبات کی حمیت کو یاد و باقی رکھتےہوئے، موجودہ دور کے سیاسی گلیاروں کو بھی،اپنی جولانیوں سے تازہ دم رکھنے والے شبابی جذبات ہی سے،قوموں کی تقدیر بدلا کرتی ہے۔
بھارت ہی کے ہمارے اسلاف، شہنشاء بابر کا وہ تاریخی جملہ یاد نہ رکھنے والے ہم 300 ملین مسلمانوں کے لئے تازیانہ عبرت ہے، جب پہلی دفعہ فاتح ھند کے سامنے سواری کے لئے ہاتھی پیش کی گئی اور جب اس کے ہاتھی پر سوار ہونے کے بعد ،اس ہاتھی کا لگام طلب کرنے پر، مہاوت کی طرف سے دست بستہ جب یہ کہا گیا تھا
کہ ہاتھی تو مہاوت کے اشاروں کی ہی محتاج ہے تب بابر بیک جنبش چھلانگ اترتے ہوئے ہاتھی سے کہا جملہ کہ “بابر ایسی سواری پر سواری کا قائل نہیں جو کسی اور کے حکم آوری کی غلام ہو” ۔بعد آزادی، آزادی ھند کی جدو جہد کے لئے سب سے زیادہ جان و مال کی قربانیاں دینے والے، جمیعت العلماء ھند اکابرین کو،شہنشاء بابر کا وہ تاریخی جملہ کیا یاد نہ رہا تھا کہ انہوں نے ایک دو نشست ایوان پارلیمنٹ من و سلوی صدقے میں، پورے بھارت کے مسلم اقلیت کی باگھ دوڑ ہی، اس وقت کی کانگریس کے ہاتھوں میں چھوڑ، خود خانقاہوں میں پناہ لینا ضروری سمجھا تھا۔ اگر اس وقت کے اکابرین جمیعت العلماء نے، عقل و ادراک سے کام لیا ہوتا
تو، آج بھارت میں مسلمانوں کی یہ درگت نہ بنتی۔ “دیر آید درست آیت” اب بھی اگر مقتدر علماء کرام و زعماء عزام، مختلف سیاسی پارٹیوں میں بھکرے، انمول موتیوں کو ساتھ لئے، ایک مشترکہ سیاسی لاحیہ عمل ترتیب دیں اور اپنی انانیت کو پس پشت رکھے، سیاسی بصیرت رکھنے والے، اعلی تعلیم قانون، وسابقہ کئی سالہ پارلیمنٹ تجربہ کار، اسدالدین اویسی ہی کی سرپرستی میں، بھارت کے ہم 300 ملین مسلمان،
المحترم خلیل الرحمن سجاد نعمانی مدظلہ جیسوں کے دلت برادری بااثر لیڈران سے، اپنے تعلقات کا استعمال کئے، دلت پچھڑی جاتی، سنگھی حکمرانوں کے بدحالوں کو ساتھ ملائے، ایک متحدہ آواز بن صف بستہ ہوجائیں تو یقیناً ہمارے اتحادی یلغار کے سامنے،کسی بھی قسم کی منافرتی طاقت،میدان کارزار سیاست میں، دیرپا ٹک نہیں سکتی ہے