مٹی بڑی زرخیز ھے ساقی
تحریر: طاھر محمود آسی
وقت کا پنچھی اپنی رفتار سے اَڑان میں ھے۔کبھی ٹھہرنے کا سوچتا نہیں ھے۔کوٸی ساتھ چلے نہ چلے اٍس نے ھر حال میں چلنا ھے۔جو کل تھا آج نہیں ھے اور جو آج ھو رھا ھے کل نہیں ھوگا۔ یہ حادثات و واقعات کا سلسلہ جاری و ساری ھے جس پر قلم کاری نہایت مشکل کام ھے۔ھمیں آزاد ھوۓ 77 سال ھو چکے ھیں مگر گلے میں طوقٍ غلامی اور ھاتھوں میں کشکول ھے۔مگر پھر بھی اربابٍ اختیار کو یہ کہتے ھوۓ سُن رھے ھیں کہ”یہ مٹی بڑی زرخیز ھے ساقی“
جس قوم کی سیاست۔قیادت۔صنعت۔زراعت۔تجارت۔معیشت۔معاشرت۔تعلیم۔انصاف بے امانت ھو چکے ھوں وہ کیسی قوم ھے اور کیسے آزاد ھے۔۔؟
یہ راز کوٸی اب راز نہیں سب اھلٍ گلستاں جان گۓ ھر شاخ پہ اُلُو بیثھا ھے انجامٍ گلستاں کیا ھو گا۔؟
لاالہ کا پاکستان۔ سرسید، اقبال اور قاٸداعظم کا پاکستان اب غٗریبستان بن چکا ھے یا پھربنتا جا رھا ھے ھمارا پاکستان ھماری پولٹری، ادویات، دودھ، بیکری سب مافیاز کے ھتھے چڑھ چکے ھیں اور ھم ھر محفل میں با آوازٍ بلند کہہ رھےھیں کہ”مٹی بڑی زرخیز ھے ساقی“
جلسہ جلسہ کھیلو اور عوام مرواٶتاکہ غریب کم ھوں یہ ان کمپنیوں کا مشن ھے۔کچھ جلسہ کرنے پر اور کچھ رُکوانے پر کار فرما ھوتے ھیں۔دونوں بڑی محنت کر رھےھوتے ھیں۔۔حق یہ ھے کہ اًمن در بدر ھے اور ھم جلسوں میں بڑے فخر سے کہہ رھے ھیں کہ ” مٹی بڑی زرخیز ھے ساقی“
قارٸین کرام إ کورٹ کچہری میں انصاف بٍک رھا ھے۔تعلیمی اداروں میں تعلیم بٍک رھی ھے۔ھسپتالوں میں ادویات بٍک رھی ھیں۔ آٹا مہنگا۔بجلی مہنگی۔جینا مہنگا۔مرنا مہنگا غرض کہ ھر طرف ڈاکو راج ھے
۔ھم کبھی کچےاور کبھی پکے کے ڈاکوٶں کےھاتھوں لًٹ رھے ھیں اور مارے بھی جا رھے ھیں۔۔۔اور پھر جلسوں میں بہ بانگٍ دًھل اعلان کر رھے ھوتے ھیں کہ ” مٹی بڑی زرخیز ھے ساقی“
ظہورٍ پاکستان کے وقت ھمارے مساٸل کچھ اور تھے اور اب کچھ اور ھیں۔یہ پڑھ سُن کر بڑی حیرانی ھوتی ھےکہ ابتداء میں ھماری حکومت نے جاپان جیسے ملک کو قرضہ دیا تھا۔مگر اب کشکول لے کربھاگ رھے ھیں کوٸی ھمارا پرسانٍ حال نہیں ھے۔۔۔اللہ اللہ اًف۔ یہ ھم کہاں سے کہاں تک پہنچ گۓ ھیں اور کیوں ؟ ؟
تاریخٍ اسلام گواہ ھے کہ حضرت سلمان فارسی رضہ مداٸن کے گورنر تھے اٍن کی تنخواہ پانچ ھزار درھم تھی ۔جب تنخواہ ملتی توساری تنخواہ صدقہ کر دیتے اور خود مزدوری کر کے اپنا گزارہ چلاتے تھے۔۔۔۔کیا ھمارے حکمران اُب ایسے ھیں؟؟
اًونچی دُکان پھیکا پکوان اور یہ مُنہ اور میسور کی دال والے ضرب الامثال اٍن پر نہایت فٍٹ آتے ھیں۔مظلوم،مفلوک الحال عوام اُب زندگی کی
اصل لذت سے محروم ھو چکی ھے۔غریب اسیران آل فرعون میں شامل ھو چکے ھیں۔سب سیاسی پارٹیاں اپنے اصل مقصد سے بہت دور ھٹ چکی ھیں کیونکہ دوڑیں لگی ھوٸی ھیں کہ۔۔۔جیسے کیسے اقتدار حاصل کرو۔۔۔پھر لُٹو تے
تے پًھٹو۔
جو میری تھی ،وہ مجھے پہچان دو مجھ کو وآپس میرا پاکستان دو کون اسراٸیل کا ایجنٹ،کون امریکہ کا ایجنٹ ایک دوسرے پر الزامات کی بارش،پولیس فوج،رینجرز اور تمام سیکورٹی ادارے شہادتوں کے انبار لگا چکے ھیں مگر سلسلہ بدامنی تھمنے کانام نہیں لے رھا۔۔آخر قصور کس کا ھے۔؟ آپریشنوں نے غریبوں کا آپریشن کر دیا ھے اور ھم پھر بھی۔۔۔”مٹی بڑی زرخیز ھے ساقی “ پر اڑے ھوۓ ھیں۔خدا را خود کو بدلو۔نظام کو بدلو۔ایک دوسرے کو دھوکہ دینا چھوڑو۔۔اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو۔اور پھر دیکھو۔۔۔۔ اب تو پرانے لوگ کہانیاں کچھ ایسے سنانی شروع ھوگۓ ھیں کہ ایک تھا بادشاہ اور وہ بہت غریب تھا۔اسکی شہر میں ایک پان سگریٹ کی دکان تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھر سیاستدان اور بیوروکریٹ بڑی محفلوں اور میٹنگز میں یہ کہتے ھیں کہ ھمیں ماضی سے سبق سیکھنا ھوگا ۔سبق سیکھ کر ھی مستقبل کو بہتر بنایا جا سکتا ھے مگرعمل کسی جگہ نظرنہیں آتا ھے۔ھر سطح پر محبت اور رواداری کا فقدان نظر آتا ھے۔ یہ بات بھی روزٍ روشن کی طرح عیاں ھے کہ خود غرض ھمیشہ حصولٍ زر کےلۓ کوشاں ھوتے ھیں اور یہ وطن کے دشمن اورعوام کے قاتل ھیں
قارٸین کرام إ وطنٍ عزیز کا ھر باسی امن کا خواھاں ھے۔ھمارے سب خواب وطن کی سلامتی اور خوشحالی سے جُڑے ھوۓ ھیں مگر حکمرانوں کا اندازٍ حکمرانی بدل چکا ھے۔ سیاست کاروبار کے انداز میں پروان چڑھتی ھوٸی نظر آتی ھے۔برداشت اور بردباری کا دھڑن تختہ ھو چکا ھے۔جلسوں اور سٹیج شوز میں گالم گلوچ کا رواج ھوتا جا رھا ھے۔ بدامنی کی ھوا چلنی شروع ھو گٸی ھے۔مزدور پریشان،کسان پریشان، طالبعلم پریشان۔ تاجر پیشان ھے۔ ملک میں پکڑ دھکڑ اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کی سیاست کا دور دورہ ھے۔اینکرز اور یو ٹیوبرز کہے جارھے ھیں”مٹی بڑی زرخیز ھے ساقی“
مُشکلےنیست کہ آساں نشود مرد باید کہ ھراساں نشود
ھم اپنے وطن کی خاطر قربانیاں دیتے رھیں گے۔قوم کا ھر پیر و جوان وطن کو عظیم تربنانے کےلۓ پرعزم اور تیار ھے۔محسوس ھو رھا ھے کہ موڑ پر انقلاب کی ضرورت ھے۔مافیاز کی تمام اقسام سے جان چُھڑوانے کے لۓ ھمیں متحد ھونا ھوگا۔
تُجھ کو کتنوں کا لہو چاھیۓ اے ارضٍ وطن جو ترے عارضٍ بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آھوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ھو گا کتنے آنسو ترے صحراٶں کو گلزار کریں
میرےپیارے وطن کے ھر باسی کی پکار ھے کہ انصاف سرٍ بازار رُسوا نہیں ھونا چاھیۓ۔ رشوت اور سفارش کسی کردار کو داغدار نہ کرے
پنجابی ،سندھی،بلوچی،پٹھان،اور کشمیری سب پاکستانی ھوں، شیعہ، سُنی، بریلوی، دیوبندی، وھابی سب مسلمان بنیں۔ سب ایک بنیں اور جب قومیں بٹتی ھیں تو اذھان تڑپتے رہ جاتے ھیں، استعماری اور استحصالی ٹولے کا نظام ملک کے چپے چپے پر اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ھے۔۔۔
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھ گھری ھوٸی ھے طواٸف تماش بینوں میں
قارٸین کرام إ دل خون کے آنسو رو رھا ھےکہ میرے وطن کے ساتھ کیا ھو رھا ھے ۔لوگ،بےسہارا ننگے فٹ پاتھوں پر تڑپ تڑپ کر مر رھے ھیں اور ھم لڑ رھے ھیں۔مزدور مزدوری کے لۓ دھاٸیاں دے رھا ھے اور ھم دست وگریباں ھیں۔ھمارا طالبعلم پریشاں حال ھے اور ھم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تًلے ھوۓ ھیں۔ھمارا ھر شعبے میں کباڑہ ھو چکا ھے اور ھم آوے آوے اور بلؐےبلے کیے جارھے ھیں۔۔۔ خدا کےلۓ مظلوم پاکستانی قوم پر رحم کرو کیونکہ اللہ رحم کرنے والوں کے ساتھ ھے
بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والو کرہ ارض پر بجھتے چلے جاتے ھیں چراغ۔۔۔۔