60

میں نہ مانوں کے نتائج آسکتے ہیں!

میں نہ مانوں کے نتائج آسکتے ہیں!

عدالت عظمیٰ کے اکثریتی ججوں نے کچھ دیر بعد ہی سہی، تحریک انصاف کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے،اس میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے اور اس کو مخصوص نشستیں دی جائیں،لیکن حکومت ماننے کیلئے تیار ہے نہ ہی الیکشن کمیشن کی سمجھ میں فیصلہ آرہا ہے ، اس لیے حکومت جہاں آئینی ترامیم اورصدارتی آرڈینس لارہی ہے ،وہیں الیکشن کمیشن بھی اجلاس پر اجلاس بلائے جارہا ہے ، لیکن دونوں ہی عدالتی عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے نظر نہیں آرہے ہیں تو اس کا خمیازہ بھی دونوں کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ اس ملک میں سارے ہی عوام کے حق رائے دہی کی باتیں تو بہت کرتے ہیں ، لیکن عوام کا حق رائے دہی ماننے کیلئے تیار ہیں نہ ہی عوام کو اپنے فیصلوں میں شامل کررہے ہیں ، بلکہ عوامی فیصلوں سے انحراف کر نے میں ہی کوشاں دکھائی دیتے ہیں ، اگر عدالت عظمیٰ عوام کے حق میں کو ئی فیصلہ کردیے تو اس فیصلے کی راہ میں بھی رکاٹیں ڈالی جاتی ہیں ،آئینی ترمیم لائی جاتی ہیں

، صدارتی آرڈینس جاری کرائے جاتے ہیں،تاکہ ہر عوامی فیصلے کو اپنے ہی حق میں تبدیل کرا لیا جائے ، لیکن اس بار ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ، عدالت عظمیٰ اپنے تائیں پوری کوشش کررہی ہے کہ عوام کے حق رائے دہی کو نہ صرف منوایا جائے ،بلکہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد بھی کر یا جائے ، لیکن اس کی راہ میں حکومت اور الیکشن کمیشن مل کر روکاوٹ بننے کی ناکام کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس ملک میں اتحادی حکومت جب سے آئی ہے، اس کی ساری کائوشیں اپنے سیاسی مخالفیں کو دیوار سے لگا نے اور راستے سے ہٹا نے کیلئے ہی ہورہی ہیں ،اس میں الیکشن کمیشن ایک فریق بن کر حکومت کا پورا ساتھ دیے رہا ہے ،جبکہ اس کاکام شفاف الیکشن کرانا ہے اور آئین و قانون کی پاسداری کر نا ہے ، اس جانب عدالت عظمی نے بھی اپنے ٖفیصلے میں توجہ دلائی ہے ، لیکن اس کا الیکشن کمیشن کوئی اثر لے رہا ہے

نہ ہی اپنا رویہ بدل رہا ہے ،بلکہ حکومت کی آواز سے آواز ملارہا ہے کہ تحریک انساف کو مخصوص نشستیں نہیں دینی ہیں، اس ہٹ دھر می کے باعث ہی ادارے ایک دوسرے کے مد مقابل آگئے ہیں اور ایک قدم آگے بڑھ کر ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں ،اس سے ملک ایک بڑے بحران سے دوچار دکھائی دیے رہا ہے ، اس بحران سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ سارے ہی دو قدم پیچھے ہٹ جائیں اور اپنی حدود میں رہ کر اپنا کردار ادا کریں ، الیکشن کمیشن عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درامد کر ے اور اس فیصلے کی راہ میںحکومت کوئی روکاٹیں کھڑی نہ کرے ،

اگر حکومت نے اپنی روش ایسے ہی برقرار رکھی تو حالات مزید بگڑتے ہی چلے جائیں گے۔
یہ اتحادی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے کہ حالات بہتر بنانے کیلئے کوئی سنجیدہ اقدامات کرے ، لیکن حکومت کے رویئے میں کوئی سنجیدگی دکھائی دیے رہی ہے نہ ہی حالات بہتر بنانے کی کوئی کوشش نظر آرہی ہے ، حکومت ہر گزرتے دن کے ساتھ ٹکرائو کی جانب ہی بڑھتی دکھائی دیے رہی ہے ، اس سے جمہوریت کیلئے خطرات بڑھتے جارہے ہیں، ملک میں جمہوریت پہلے ہی مثالی طور پر مستحکم نہیں

،اسے مزید کمزور بنانے سے ایک بار پھر جمہوریت اپنی پٹری سے اُتر بھی سکتی ہے،اس پس منظر میں ضروری ہے کہ قومی سطح پر ٹکرائوکی کیفیت کو ختم کیا جائے اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر فوری عمل در آمد کیا جائے ،سپریم کورٹ کا فیصلہ ہرحال میںعملدرآمد کا متقاضی ہے، اس معاملے میں مزید قانونی اشکالات کی آڑ لینے اور وقت ضائع کرنے کے بجائے معاملات کو درست سمت میں آگے بڑھا نا چاہئے، اس سلسلے میں حکومت کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ اپنے اندر عوامی مینڈیٹ کے احترام کا جذبہ پیدا کرے اور انتخابی عمل میں شفافیت یقینی بنانے میں ریاستی اداروں سے مل کر آگے بڑھے

،اگر حکومت ایسا نہیں کرے گی اور میں نہ مانوں کی رٹ لگائے رکھے گی تو اس کے نتائج بھگتنا پریں گے ، عدالت عظمیٰ بھی اپنا فیصلہ منوانے کیلئے اپنا اختیار استعمال کرے گی ، وزیر اعظم اور الیکشن کمیشن دونوں ہی پکڑ میں آسکتے ہیں ، اس سے پہلے کہ عدالت عظمیٰ حکومت کے میں نہ مانوں پر توہین عدالت کے نوٹس جاری کرے ، حکومت اور الیکشن کمیشن کو اپنا قبلہ درست کر لینا چاہئے ، ورنہ حکومت رہے گی نہ ہی جمہوریت ہی بچے گی، ساری ہی گیم ہاتھ سے نکل جائے گی اور چار وں اطراف بھاری بوٹوں کی دھمک ہی سنائی دیے گی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں