غلامی کی زنجیریں کب ٹو ٹیں گی !
ملک میں بڑھتی مہنگائی کے باعث عوام کا جینا حرام ہے اور حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ غربت میں کمی ہو رہی ہے مہنگائی کم ہو رہی ہے، لوگوں کے وسائل بڑھ رہے ہیں، لیکن اس کے برعکس بازار جائیں تو اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں،بازار میں دکانوں پر قیمتیں ایک کلو کی بجائے ڈھائی سو گرام، یعنی ایک پاؤ کی قیمت درج کی جارہی ہے،کیو نکہ جس قیمت میں کل ایک کلو چیز ملتی تھی ،
اس قیمت میں آج وہی چیز ایک پائو مل رہی ہے اور عام آدمی بڑی مشکل سے ایک پائو کی ہی خریداری کر رہا ہے،لیکن اس ایک چوتھائی شے ملنے اور خریداری کرنے کو ہی شاید حکومت غربت اور مہنگائی میں کمی اور وسائل میں اضافہ سمجھ رہی ہے۔اس ملک میں جو بھی اقتدار میں آتارہا ہے ، اس دعوے کے ساتھ ہی آتا رہا ہے کہ مہنگائی کا خاتمہ کر یں گے ، عوام کی زندگی میں خوشحالی لائیں گے ، لیکن ہر دور حکومت میں مہنگائی میں کمی آئی ہے نہ ہی عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی لائی جاسکی ہے ،
اس اتحادی حکومت نے تو سارے ہی ریکارڈ تور دیئے ہیں ، ایک طرف حکومت قر ض پر قر ض لیئے جارہی ہے تو دوسری جانب سارے ہی قرض کا بوجھ عام عوام پر ہی ڈالے جارہی ہے اور اس کے بعد دعویٰ کررہی ہے کہ مہنگائی میں کمی آرہی ہے اور اس سے عوام کی زندگی میں تبد یلی لائی جارہی ہے ، یہ کیسی مہنگائی میں کمی ہے اور کیسی عوام کی زندگی میں خوش حالی لائی جارہی ہے کہ اس حکومت کو چھولیاں اُٹھا کر عوام بد عائیں دیے رہے ہیں ،اس کے خلا ف ہی سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔
حکومت ماننے کیلئے تیار ہے نہ ہی اپنی روش بدل رہی ہے ، اس حکومت کی تر جیحات میں عوام کہیں دکھائی ہی نہیں دیے رہے ہیں ،عوام کو اعدادوشمار کے گورکھ دھندے سے بہلایا جارہا ہے تو کبھی مختلف اداروں کی رپورٹ سے بہکایا جارہا ہے کہ مہنگائی کم ہورہی ہے ، لیکن عوام کو کہیں مہنگائی میں کمی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ،اس پرعوام سر اپہ احتجاج ہیں اور حکومت ان کے درینہ مسائل کے تدارک کے بجائے مزیداضافہ ہی کیے جارہی ہے ، ایک طرف اشرافیہ کو چھوڑ کر عام آدمی پر ہی نئے ٹیکس لگائے جارہی ہے تو دوسری جانب یو ٹیلی بلوں میں اضافہ کیے جارہی ہے ، اس کے بعد بھی کہہ رہی ہے
کہ آئی ایم ایف سے قرض لیے بنا گزارا نہیں ہے ، لیکن اس قر ض کا بوجھ ایک بار پھر عام عوام ہی اُٹھائیں گے ، عام عوام کو ہی قر بانی کا بکرا بنائیں گے ، لیکن عوام کو کوئی رلیف دیں گے نہ ہی عوام رستے زخموں پر مر ہم لگائیں گے ، وزیر اعظم سے لے کر آرمی چیف تک سارے ہی عام لوگوں کے بجائے اشرافیہ سے ہی ملاقاتیں کریں گے اور انہیں ہی یقین دہانیاں کرائیں گے کہ ان پر ہاتھ ڈالا جائے گا نہ ہی ان پر کوئی اضافی بوجھ ڈالا جائے گا ، بلکہ ان کی کمائی کا راستہ مزید ہموار کیا جائے گا ۔
اس دوغلی پا لیسی کے باعث ہی عام عوام پس کررہ گئے ہیں ، عام عوام کونا ن فائیلر کے شکنجے میں جکڑا جارہا ہے اوربڑے کاروباری لوگوں کو کھلی چھوٹ دی جارہی ہے ، یہ پہلے ہی پوری ٹیکس کی آدائیگی کرتے ہیں نہ ہی اپنے بہت سے کاروبار وں کو رجسٹرڈ کراتے ہیں ، یہ دونوں ہاتھوں سے مال بنارہے ہیں ،لیکن حکومت کو نہ ہو نے کے برابر دیے رہے ہیں ، اس کے باوجود انہیں ہی حکومت راضی رکھنے میں لگی ہوئی ہے، کیو نکہ یہ ہر دور میں ہر حکومت کے ہی حواری ہوتے ہیں ،جبکہ عوام کا کوئی پر سان حال نہیں ہے ، عوام کا جینا عذاب ہورہا ہے ،لیکن کوئی پو چھ رہا ہے نہ ہی کوئی داد رسی کررہا ہے
، کیو نکہ حکومت بنانے اور گرانے سے عوام کو باہر کر دیا گیا ہے ، عوام کوآزادانہ حق رائے دہی دیا جارہا ہے نہ ہی عوام کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جارہا ہے ، بلکہ عوام مخالف فیصلوں کو عام عوام پر ہی مسلط کیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ بلا چوراں ان پر عمل کیاجائے ،اگر اس کے خلاف کوئی آواز اُٹھاتا ہے تو اُسے پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے ، دہشت گرد قرار دیے دیا جاتا ہے یا پھر غائب ہی کر دیا جاتا ہے۔
اس طرح سے اتحادی حکومت کو نسے سنہری مستقبل کے لئے کام کر رہی ہیں، ملک میں ایک طرف بد حالی کا زور ہے تو دوسری جانب عدم استحکام کا بڑھتا شورہے، اس کے باعث کوئی کار وبار چل رہا ہے نہ ہی فیکٹریوں میں کوئی کام ہورہا ہے، فیکٹریاں کاروبار بند ہو رہے ہیں اور مزدور بیروزگار ہو رہے ہیں، لیکن نئی ڈھائی کروڑ مزدوروں کی کھیپ جو تیار ہورہی ہے ، یہ کہاں مزدوری کرے گی،اس کی حکمرانوں کو کوئی پرواہ ہے نہ ہی اس کیلئے کوئی منصوبہ سازی کی جارہی ہے ، حکومت نمائشی اعلانات اور اقدامات کے علاوہ کچھ کررہی ہے نہ ہی کو کچھ عملی طور پر کہیںہوتا دکھائی دیے رہا ہے
،کیو نکہ یہ بے روز گار بچے ان کے نہیں ، عام عوام کے بچے ہیں ، جو کہ ڈگریاں لے کر بے روز گار سڑکوں پر گھوم رہے ہیں ، بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ حکمران اشرافیہ کے بچے توبیرون ممالک رہتے ہیں ،وہیں پڑھتے ہیں، وہیں علاج کراتے ہیں،لیکن حکمرانی کرنے پا کستان آجاتے ہیں ، یہ آزمائے شریف اور زرداریوں کے غلام ابن غلامی سے ہم کب نجات حاصل کر یں گے ، یہ غلامی کی زنجیریں ہم کب توڑیں گے، یہ غلامی زنجیریں جب تک نہیں ٹوٹیں گی ، ملک میں خوشحالی آتی دکھائی دیتی ہے نہ ہی عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آتی دکھائی دیے رہی ہے !