300 ملین ہم مسلمانان ھند کا سیاسی قائد کون؟
نقاش نائطی
نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلوزن دہلی
۔ +966562677707
فاعتبروا یا اولی الابصار ترجمہ:- تم ہوشیار رہو اے بینائی والو(مسلمان) ندائے رب دوجہاں بالقرآن
لوگ کہتے ہیں کہ اندلس کی تاریخ کم از کم عالم کی سب سے بڑی جمہوریت ھند میں تو نہیں دوہرائی جاسکتی ہے۔ لیکن سقوطِ دہلی، سقوط جونا گڑھ احمد آباد گجرات، سقوط اودھ و بھوپال اور سقوطِ مسلم اکثریتی حیدرآباد و دگرگوں حالت کشمیر، دیگر عالمی مسلم ریاستیں غرناطہ قرطبہ، اشبیلیہ اور طلیطلہ سے کم تھوڑی نا ہیں ہے؟
چمنستان بھارت کے ہم نام نہاد 30کروڑ مسلمان ہونے کے باوجود کیا یہ ھند کی ویران خستہ حال زبردستی غیر آباد رکھی گئی تاریخی مساعد، زوال سلطنت اسلامیہ یورپ اندلس کی، کیا ہمیں یاد نہیں دلاتیں ہیں؟
کہتے ہیں کرہ ارض پر ایک مرتبہ تعمیر کی گئی مساجد، تاقیامت مسجد باقی رہتی ہے۔ چمنستان بھارت پر سابقہ سات آٹھ سو سالہ مسلم شہنشائی، بادشاہی، نوابی، سلطانی راجیہ میں،ہم مسلم حکمرانوں ہی کے عطیات سے تعمیر کردہ،ان بےتحاشا تاریخی مندر و دھرم شالاؤں میں، بشمول دیش کے سب سے بڑے مسلم کثیر الابادی تناسب والے یوپی کے اب تک کے سب سے زیادہ مسلم منافرتی وزیر اعلی شری یوگی آدھتیہ ناتھ والے گورکھ ناتھ مندر سمیت، ہر ایک مندر دھرم شالا کو،جہان اپنے پورے اقدار سے باقی رکھا گیا ہے،وہیں مسلم اوقاف تاریخی مساجد کو، تاریخی اثار قدیمہ شمار کئے ،ان کی حفاظت کے بہانے انہیں ہم مسلمانوں کےزیر استعمال و نگہداشت سے، ہمیں محروم رکھے، یوں دانستہ یک و تنہا غیر آباد چھوڑا جانا، بعد آزادی ھند، اسلام دشمن مشرکانہ سازشانہ عمل کا جہاں غماز ہے، وہیں ان تاریخی مساجد کی یہ گنبدیں، یہ محراب، یہ مینار، یہ مسجدیں پکار پکار کر، ملت اسلامیہ ھند کی عظمت رفتہ کے نہ صرف گن گا رہی ہیں
بلکہ فی زمانہ اس سنگھی مودی یوگی دور نفرتی، رام راجیہ میں،تاریخی مقامات کی حفاظت کے بہانے ہم مسلمانوں کو، اپنی ان املاک مساجد سے زبردستی دور، انہیں غیر مستعمل رکھے، وہاں ان مقدس مقامات پر ہونے والی ہم انسانوں کی سیاہ کاریاں ،ان مقامات مقدسہ پامالی کے لئے، ہم پانچویں حصہ آبادی ھند 300 ملین مسلمانوں پر نازل کیا جانے والا یہ سنگھی رام راجیہ آزمائشی دور، بھلے ہی ترپل طلاق، امتناع قانون آذان بالمساجد فی ارض جمہور مختلف المذاہب، اور اب نیا نازل کردہ نفرتی فرمان وقف املاک ترمیم بل، یقیناً ان تاریخی مساجد کی، بے حرمتی، پامالی، توقیر حرمت مساجد کے برابر کے ذمہ دار، ہم 300 ملین بھارتیہ مسلمان اور ہم مسلمانوں کے خود ساختہ ٹھیکے دار اور اسکے ذمہ دار والیاں، لیڈران اور علماء کرام کو بھی ان مسلم املاک مساجد پامالی کا برابر ذمہ دار ٹہراتا ہے۔
یوں اچانک آسمانوں سے ہم نام نہاد مسلمانوں پر، آزمائشیں نہیں اترا کرتیں۔ بعد آزادی ھند، بھارت پر حکومت کررہی کانگرئس کے ساتھ اشتراک حکومت،ایک دو راجیہ سبھا، لوک سبھا سیٹوں ہی کےتوسط سے، حکومتی من و سلوی سے استفادہ حاصل کرنے کے چکر میں، یوں اسلامی تاریخی مقامات نگرانی سے صرف نظر کرنے والے، ہمارے قائدین ملت کا خمیازہ، آج پوری امت مسلمہ ھند کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔
اس آزاد سیکیولر جمہوریت بھارت میں، جہاں چھ آٹھ فیصد کرمی یادؤ، ٹھاکر، نامداری، لنگایت جیسی بیسیوں قومیں،حکومتی ایوانوں کے من و سلوی اڑانے میں مست و مگن ہیں، ہم پندرہ سے بیس فیصد اجمالی،بعض انتخابی حلقوں میں،تیس سے پچاس فیصد آپنی مسلم کثرت آبادی باوجود، آخر کیوں ہمیں زمام اقتدار سے بیگانہ رسواء تر ہوئے،جینے پر مجبور کیا جارہا ہے؟ کچھ تو ہماری اجتماعی خطائیں لغزشیں ہیں،جن کی پاداش میں،ہندستانی معاشرےمیں یہ رضالت و بے توقیری ہماری قسمت میں لکھی ہمیں ملی ہے
۔ مالک دوجہاں رب کائینات اللہ رب العزت تو صدا سے عرش معلی پر مستوی ہیں،وہ براہ راست ہم تک مال و دولت وجاء حشمت و اقتدار براہ راست خود لاکر نہیں دیا کرتے، بلکہ دنیوی اسائش و رزق ہماری محنت و حکمت میں پنہاں ہماری کوششوں کے تابع چھوڑی گئی ہیں،وہ رزاق دوجہاں،ہمارے اعمال سے ہماری قسمت،جہاں متعین کرتے ہیں، اور ہم میں ودیعت کردہ حکم ربانی سے، ہماری طرف سے جستجو ہوجاتی ہے اور ہمیں مال و زر،جاء و حشمت اقتدار مملکت حوالہ کیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح، ہم سے یا ہمارے اسلاف سے سرزد ہونی لغزشوں کوتاہیوں کے صلے میں، ہمارے سوچنے سمجھنے اور تدبر کرنے کی صلاحیتوں کو ماؤف کیا جاتا ہے اور ہم سے مزید لغزشیں کوتاہیاں یکے بعد دیگرے سرزد ہوتی رہتی ہیں
اور یوں ہم معاشرے میں،یک و تنہا رضالت، پس ماندگی، بے توقیری سے جینے پر مجبور چھوڑے جاتے ہیں۔ ورنہ ہم آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ جن جن انتخابی حلقوں میں مسلمان کم آبادی تناسب ہیں، وہاں کے ہم مسلمانوں کی کسم و پرسی تو سمجھ آتی ہے لیکن جن انتخابی حلقوں میں ہم ایک تہائی سے زیادہ مسلم ووٹ رکھتے ہیں اور بعض حلقوں میں نصف آبادی تناسب سے بھی زیادہ جہاں ہیں وہاں ہمیں مختلف سیکیولر پارٹیوں میں الجھائے رکھے، ان مسلم آکثریتی حلقوں سے بھی مسلم دشمن سنگھی امیدوار کا میدان مار لے جانا، کیا درشاتا ہے؟ خصوصاً قائدین مسلم ملت والے دیوبند مسلم اکٹریتی حلقہ سے بھی، کسی نہ کسی بہانے، ہمیں مختلف سیکولر پارٹیوں میں الجھائے رکھے، ہمیں شکست فاش دیتے
،مسلم دشمن سنگھی قوتوں، کا ہماری بے بسی، لاچارگی کے مونگ کے دانے،وہ بھی ہماری ہی چھاتی پر دلنا یا دلوانے کے مواقع فراھم کرنا،کیا تعجب خیز امر نہیں ہے؟ عقل و فہم و تدبر سے بہرور ہم قائدین مسلم امہ کے گڑھ سے یہ سب کچھ ہونا کیا کوئی سوچ سکتا ہے؟ ہمیں لگتا ہے یہ سب بعد آزادی ھند حکومتی من و سلوی کے مزے اڑانے میں مست، مسلم اوقاف املاک و مساجد کو یوں ویران و خستہ بدحال ہونے چھوڑا جانا ہی، اصل سبب ہے
جو ہمارے اسلاف کی کوتاہیوں کی سزا کے طور بارگاہ ایزدی سے، انتخابی حکمت عملی ترتیب دئیے جاتے وقت، ہماری عقلیں ماؤف رکھے، ہم سے کوتاہی پر کوتاہی سرزد کروائی جاتی ہیں۔ اور ہم ان مسلم دشمن سنگھیوں کے سامنے سرنگوں خجل و شرمندہ پائے جاتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں مخلص قائد سیاست المحترم اسدالدین اویسی مدظلہ نے اپنی اپنی ایک عوامی تقریر میں برملا کہا ہے کہ بھارت کے طول و ارض میں چالیس سے پچاس حلقہ انتخاب پارلیمنٹ، میں، ہم مسلمان کچھ اتنی اکثریت میں ہیں کہ وہ اگر یکجت متحد ہوجائیں تو اپنے میں سے کسی بھی گدھے گھوڑے کو اپنا قائد چن سکتے ہیں،
اور چالیس سے ساٹھ آیسے حلقہ انتخاب پارلیمنٹ ہیں، جہاں موجود ایک تہائی مسلم اقلیت جس کسی بھی امیدوار کے پالے میں جائے، اسے فاتح کروانا بالکل ہی آسان ہوجاتا ہے تو پھر ان ایک تہائی ووٹوں والے حلقہ انتخاب مسلم قائدین، غیر متنازع سیکیولر غیر مسلم امیدوار ہی سے، کچھ دو کچھ لو والے اوصول پر، وقتی یا دائمی انتخابی سمجھوتہ کئے، حکومتی من و سلوی ہی سے،کیوں نہ استفادہ حاصل کئے جاتے ہیں۔ کم از کم ایسے انتخابی سمجھوتوں سے، مسلم دشمن سنگھی قوتوں کو، کمزور تو کیا جاسکتا ہے؟
ہم مسلم قائدین کا یہی مسئلہ ہمارے متحد ہونےکے آڑے آتا ہے کہ کل وہ مد نسبت قائد، سیاسی استحکام پالیگا تو ہمارے اقتدار کے لئے خطر ثابت ہوسکتا ہے۔ ورنہ جہاں، نہ صرف 1400 ملین بھارتیہ ہم مسلمان،بلکہ عالم کے بین الملوکی معاملات پر نظر رکھنے والے ناقدین کی اکثریت اسدالدین اویسی کی قائدانہ سیاسی صلاحیت کے معترف ہیں اور جہاں علماء مدنی بردران کی مذہبی مسلم معاشرتی قیادت کے ہم 300 ملین مسلمان سمیت عالم کی مسلم امہ معترف یے، وہیں اس مسلم منافرئی یوگی مودی سازشانہ سنگھی رام راجیہ میں، ہزاروں سالہ عالم کی سب سے بڑی آسمانی مختلف المذہبی سیکیولر جمہوریت میں، ہر گزرتے دن کے ساتھ، ہم مسلم اقلیت کو اپنے دین اسلام عمل آوری مشکل تر کردئیے جاتے
پس منظر میں بھی، دینی و سیاسی راہ گزر کے،مشاق جدا جدا راہبر انتخاب کئے جانے پر اتفاق کیوں نہیں ہوپاتا ہے۔ اگر اعلی مسلم قیادت ہی وقت کے تقاضے کے تحت اتفاق اتحاد پر ایک ساتھ نہیں آسکتے ہیں تو 300 ملین ہم مسلمانوں کے مابین اتحاد و اتحاد کی خواب شرمندہ تعبیر کرنے کی کوششیں ہی، بے سود ہوجاتی ہیں۔
300 ملین ہم بھارتیہ مسلمانوں کی سیاسی نیابت،المحترم اسدد الدین اویسی کے بیس پچیس سالہ پارلیمنٹ، عملی مسلم قیادت تناظر میں، اور انکے قانون ارضی ھند یکتائیت والے پس منظر میں، مدنی برادران کو مسلم امہ ھند کی سیاسی قیادت مسند اعلی پر متمکن ہوپانا مشکل تر امر جہاں ہے وہیں پر مذہبی علوم اپنی آگہی باوجود، دینی معاملات ہم 300 مسلمانان ھند کی قیادت مدنی برداران سے پرے اسدالدین اویسی کے لئے محال تر ہے۔ تو پھر دینی و سیاسی قیادت، ایک دوسرے کی صلاحیت تسلیم کئے، دونوں راہ کے جدا جدا قائد سیاست اور نیابت دینی علوم مقرر کئے جاتے، امت مسلمہ ھند کی سیاسی قیادت کا مسئلہ حل کرنے میں لیل و لعل آخر کیوں کیا جارہا ہے؟اسدالدین اویسی بی جے پی بی ٹیم کا شوشہ وقت وقت سے چھوڑے جاتے اسے سیاسی مستحکم ہونے سے مانع رکھنے کی سازشیں آخر کون رچ رہے ہیں؟
اتفاق ملت کے بلند و بانگ دعوے کرنا بالکل ہی جدا امر ہے آور عملاً اتفاق ملت میں پیش رفت الگ بات یوکر رہ جاتی ہے۔ شیطان رجیم کے چیلے چپاٹے یہ سنگھی حکمران ہماری بعض معمولی لغزشوں کو بھی آلہ کار بنا ہمیں بلیک میل کئے انجانے میں ہی، ہمیں انکا آلہ کار بننے پر مجبور کرتے ہیں۔ اویسی ہر بی ٹیم بننے کا الزام لگانے والوں کو محترم مدنی برادران کے گھر آنگن،انہیں خاموش رکھے، سنگھیوں کی جیت کیا درشاتی ہے؟یہاں مقصد ایک دوسرے کی غلطیوں کو طشت از بام کرنا نہیں، بلکہ چھ سات فیصد یادؤ،
ٹھاکر نامداری، لنگایت،کرمیوں کے آپنی دآنشمندانہ تدبرانہ چالوں سے ریاستی و مرکزی حکومتی من و سلوی دونوں ہاتھوں سے سمیٹتے پس منظر میں، ہم بھارت کے 20فیصد اجمالی مسلم اقلیت 300 ملین بھارتیہ مسلمانوں کو، تجربہ کار مخلص صحیح قیادت دلواتے ہوئے، عالم کے اس سب سے بڑے جمہوری مگر کثیر المذہبی سیکیولر ملک میں، ہمیں ہمارا صحیح حق دلوانے کی فکریں مسلم امہ میں جاگزیں کرنے کی تڑپ ہے ۔ ہم اس میں کتنے کامیاب ہیں یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔وما علینا الا البلاغ