66

حواکی بیٹی کب تک غیر محفوظ رہے گی !

حواکی بیٹی کب تک غیر محفوظ رہے گی !

کیا پا کستان کا اصل چہرہ ایسا ہی ہے کہ یہاں تعلیمی اداروں میں طلبہ محفوظ نہیں رہی ہیں ،ایک کے بعد ایک تعلیمی ادارے میں کبھی جنسی تشدد تو کبھی خودکشی وقتل کے واقعات بڑھتے ہی جارہے ہیں لیکن ان واقعات کا سد باب کر نے کے بجائے انہیںدبا یا جارہا ہے اور عام عوام کو بہکایا جارہا ہے، گزشتہ روز بھی ایک نجی کالج میں طلبہ کے ساتھ گارڈ کی زیادتی کا واقعہ سامنے آیا تو اس پر طلباء نے پر زور احتجاج شر وع کر دیا ،اس پر صوبائی حکومت کو طلباء کے ساتھ کھڑے ہو نا چاہئے تھا ،

مگر صوبائی حکومت طلباء پر ہی پولیس کا تشدد کر ارہی ہے اور اپنے حواریوںکے تعلیمی ادارے کی ساکھ بچانے کیلئے پورا زور لگا رہی ہے ، مبینہ زیادتی کی شکار طلبہ کے والدین پر دبائو ڈال کر بیان دلوایا جارہا ہے اور پو لیس آفسران سے کہلو یا جارہا ہے کہ ایساکچھ نہیں ہوا ہی ہے ، حوا کی بیٹی محفوظ ہے ، جبکہ حواکی بیٹی اب کہیں بھی محفوظ نہیں رہی ہے ۔یہ سب کچھ پا کستان میں کوئی پہلی بار نہیں ہورہا ہے

، اس سے قبل بھی ایسے ہی بہت سے واقعات ہوتے رہے ہیں اور حوا کی کمسن ،نابالغ اور کنواری بیٹیاںجنسی ظلم و تشدت کا شکار ہوتی رہی ہیں ، اس طرح کے کچھ واقعات میڈیا کی بدولت سامنے آجاتے ہیںاور ان پر عدالت و سول سوسائٹی آواز اُٹھا بھی لیتی ہے ،لیکن اس پر چندروز ہی شور مچتا ہے اور پھر ایسی خبر یں اندرونی صفحات کے کنوں کھدروں میں کہیں دب کر رہ جاتی ہیں یا خود ہی دبا دی جاتی ہیں ، لوگ بھی جلد ہی بھول جاتے ہیں کہ ایسا کبھی کچھ ہوا تھا ، لیکن اس بار ایسا نہیں ہو نا چاہئے ، کیو نکہ اگر حوا کی بیٹی تعلیمی اداروں میں محفوظ نہ رہی تو پھر کہیں بھی محفوظ نہیں رہ پائے گی۔
ہر دور اقتدار میں حکمران بچیوں کو تعلیم دلا نے کا درس دیتے ہیں ، خواتیں کو برابری کا سبق بھی پڑھا تے ہیں ،لیکن یہ حواکی بیٹی جب باہر نکلے گی تو اُس کی عزت اور احترام کی کیسے حفاظت کی جائے گی، اُس کی کسی کو کوئی فکرہے نہ ہی کوئی احتمام وانتظام کیا جارہا ہے، بلکہ ہر کام اہل مغرب کی تقلید میں کیا جارہا ہے اور انہیں ہی دکھایا اور بتا یا جارہا ہے ، اگر ہم نے خواتین اور بچیوں کو استحصال سے بچانے ہے تو اس کیلئے اہل مغرب کی بجائے اسلامی شعائر اور دینی تعلیمات کے مطابق جہاں اپنا ماحول ڈھالنا ہو گا،وہاں پاکستانی معاشرہ کی تربیت کا بھی احتمام کر نا ہو گا،

کیوں کہ ہمارے معاشرے میں جوبگاڑ پیدا ہو چکا ہے ،اُس کو ختم کرنے کے لیے اسلامی اخلاقیات اور اصولوں کی بنیاد پر ایک ایسی قومی تحریک کی اشد ضرورت ہے کہ جس میں تعلیمی اداروں سے لے کر میڈیا تک سب ہی شامل ہوں، اگر ایسا نہ کیا گیاتو حالات دن بدن بگڑتے ہی رہیں گے اور ایسے درندگی اور غیر انسانی واقعات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر قائم آج کے پاکستان میں حوا کی بیٹی ہی غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہے، جبکہ سفاک درندے ہر طرف دندناتے پھررہے ہیں،ہر روز میڈیا کے ذریعے ایسی درندگی کے نئے واقعات سننے کو ملتے ہیں اور ایسامحسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف ایسے ہی گھناونے جرائم ہو رہے ہیں،لیکن حکو مت کچھ کررہی ہے نہ ہی اس کے تدارک بارے کچھ سو چ رہی ہے ، ہر واقعے کے بعد تحقیقاتی کمیٹیاں بنادی جاتی ہیں

، اس کی رپوٹیں بھی سامنے آ جاتی ہیں ، لیکن ان رپوٹوں کے بارے عام عوام کو پتا چلتا ہے نہ ہی کوئی کاروائی ہوتی دکھائی دیتی ہے ،اس لیے ہی ایسے وقعات کم ہو نے کے بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اور بات تعلیمی اداروں تک جا پہنچی ہے ، یہ تمام واقعات معاشرہ کے اُس سنگین بگاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جس کا شکار حوا کی بیٹی ہے، اس کے باوجود اس ظلم سے بچانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی جارہی ہے ۔
اس صوبہ پنجاب کی وزیر اعلی ایک خاتون ہیں اور وہ حوا کی بیٹی کو محفوظ بنانے کی دعوئیدار رہی ہیں ، لیکن کیا اُن کے صوبے میں حوا کی بیٹی محفوظ ہے تو اس کاجواب یہی ملے گا کہ حوا کی بیٹی اس صوبے میں ہی نہیں ، اس معاشرے میں ہی غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہے اور اس کو محفوظ بنا نے کیلئے کوئی کچھ کررہا ہے نہ ہی غیر محفوظ بنانے والوں کو عبرت کا نشان بنایا جارہا ہے ، بلکہ اُ ن کا ہی ساتھ دیا جارہا ہے

اورانہیں ہی بچایا جارہا ہے، اس کے خلاف آواز اُٹھا نے والوں کی آواز کو بزور طاقت دبا جارہا ہے ، دیوار سے لگایا جارہا ہے اور باور کریا جارہا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے ، حواکی بیٹی محفوظ ہے ، جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے ، حواکی بیٹی اب کہیں بھی محفوظ نہیں رہی ہے ، تعلیمی اداروں میں بھی غیر محفوظ ہو گئی ہے ،آخر حوا کی بیٹی ایسے ہی کب تک غیر محفوظ رہے گی!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں