55

آئینی ترمیم منظور ہو نے جارہی ہے!

آئینی ترمیم منظور ہو نے جارہی ہے!

ملک بھر میں ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے26ویں آئینی ترمیم ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے ،اوراس آئینی ترمیم کو لے کرحکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک طویل کشمکش جاری رہی ہے،اس آئینی ترمیم کے مسودے پرحکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے ہی نہیں ہو پارہا تھا ، لیکن مو لا نا فضل الرحمن اور باول بھٹو زرداری کی شب وروز مشاورت کے باعث بڑی حدتک اتفاق رائے پیدا ہو گیا ہے اور اب آئینی ترامیم کا مشترکہ مسودہ قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن منظور ی کے لیے پیش کرنے جارہے ہیں،یہ آئینی ترمیم کا مسودہ منظور تو ہو ہی جائے گا، لیکن اس آئینی تر میم کی حکو مت کوکتنی بڑی قیمت ادا کر نا پڑی ہے اور مز ید کتنی قیمت ادا کر نا پڑے گی ، اس بارے آئینی ترمیم منظورر ہونے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔
اتحادی حکو مت ہر حال اور ہر قیمت پر آئینی ترمیم منظور کر نا چاہتی ہے ، لیکن اتحادی جماعتوں کو آئینی ترامیم کرتے وقت ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمیشہ اقتدار ان کے ہاتھ میں نہیں رہنا ہے اور اگلی بار ممکن ہے کہ حکومت کسی ایسی سیاسی جماعت کی ہو ،جو کہ ان سے نظریاتی اور سیاسی اختلافات رکھتی ہے، لہٰذا ایسی آئینی ترامیم جوکہ آج ایوانِ اقتدار میں موجود ایک سیاسی جماعت یا گروہ کے کام آسکتی ہیں

، وہ ہی کل دوسری جماعت اور گروہ کے لیے ہتھیار بھی ثابت ہوسکتی ہیں، اس حوالے سے ہمارے پاس ماضی قریب کی کافی مثالیں موجود ہیں، اس لیے حکمران اتحاد کو اس سلسلے میں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا چاہیے اور آئین میں ایسی ترامیم کرانی چاہئے، جو کہ کسی ایک جماعت یا گروہ کو ہی نہیں، بلکہ مجموعی طور پر ملک کے لیے استحکام کا باعث بنے ، لیکن اس کے برعکس ہی کیا جارہا ہے اوراپنے اپنے مفادات کو ہی یقینی بنایا جارہا ہے ۔
یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ اس ملک کی سیاست قومی اور عوامی مفادکے بجائے ذاتی مفادات کے گردی ہی گھو متی رہتی ہے ، اس آئینی ترمیم کا معاملہ بھی ذاتی مفادات کے گرد ہی گھوم رہا ہے اور اس میں ہر کوئی اپنا مفاد ہی دیکھ رہا ہے اور اپنے ہی مفاد کو یقینی بنا رہا ہے، اس درینہ موقع سے مولانا فضل الرحمن بھی بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، کیو نکہ انہیں اپنے نظر انداز کیے جانے کا انتہائی شکوہ رہاہے

اور وہ اس بار کسی پر اندھا اعتماد کر کے کسی قسم کی کوئی غلطی دہرانا نہیں کرنا چاہتے ہیں،اس پر بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے جائز مطالبات اور شکایات وزیر اعظم کے سامنے رکھے ہیں‘ اُمید ہے کہ وزیر اعظم نے جو یقین دہانی کرائی ہیں، اس پر عمل بھی کریں گے‘ اگر ایسا ہو جاتا ہے ا تو ہم آئینی ترمیم کو منظور کرانے کے قابل ہو جائیں گے۔اس وقت مولا نا فضل الر حمن اور ان کی رہائش گاہ سیاست کا مر کز بنی ہوئی ہے اور ہر کوئی بار بار نہ صرف مو لا نا کے دیدار کا شرف حاصل کررہا ہے،

بلکہ نظر نیاز بھی حاصل کر نے کی کوشش کررہا ہے ، مو لا نا کی بھی کوشش رہی ہے کہ ہر ایک کے مفادات کے ساتھ اپنے مفاد کو بھی یقینی بنایا جاسکے ، اس میں مولا نا بڑی حدتک نہ صرف کا میاب ہوتے دکھائی دیے رہے ہیں ، بلکہ ہر ایک سے انصاف کرتے ہوئے بھی دکھائی دیے رہیں ،مولا نا ہر ایک کی نظر میں اتنے سر خرو ہوتے دکھائی دیے رہے ہیں کہ شیح رشید بھی تعریف کر نے پر مجبور ہو گئے ہیں ، سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ مو لانانے آئینی ترمیم کے مسودے کا رائوڈ جیت لیا ہے،مولانا فضل الرحمان کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں، آج عوام کے درمیان مولانا فضل الرحمان کا بہت بڑا مقام ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مو لا نا فضل الر حمن انتہائی اہم موقع پر انتہائی اہم مثبت کر دار ادا کر رہے ہیں اور آئینی تر میم کے معاملے کو اپنے منتقی انجام تک پہنچا رہے ہیں ، اس پر حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کے مسودے میں تقریباً 70 فیصد تک تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمن کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں، اس کے بعدبظاہر آئینی ترمیم کی منظوری میں اپوزیشن کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں رہی ہے ، یہ زبانی کلامی اختلافی بیان بازی عوام کو بہلانے کیلئے کی جارہی ہے

،جبکہ26 آئینی تر میم اتفاق رائے سے منظور ہو نے جارہی ہے اور اس آئینی ترمیم کی منظوری میں تحریک انصاف بذریعہ مو لا نا فضل الرحمن شامل ہورہی ہے ،تاہم یہ عقدہ بہت جلد ہی کھل جائے گا کہ اس آئینی ترمیم کی منظوری سے پہلے حکو مت کوکتنی قیمت اداکرنا پڑی ہے اور اس کی منظور ی کے بعد کتنی بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں