22

آئینی تر میم میں عوام کی کا میا بی !

آئینی تر میم میں عوام کی کا میا بی !

اتحادی حکو مت کی آئینی تر میم کے بارے پھر تیاں دیکھنے کے لائق رہی ہیں ، 26 ویں آئینی ترمیم کی توثیق کے فوری بعد اس پر عملدرآمد کی کارروائی بلاتاخیر شروع کر دی گئی ہے، ایک طرف آئینی بنچ بنایا جارہا ہے تو دوسری جانب چیف جسٹس سپریم کورٹ نام زد کیا جارہا ہے ، وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے

کہ آئینی ترامیم معاشی و سیاسی استحکام کے لیے اہم سنگ میل ہے، اس آئینی ترامیم سے عام آدمی کو تیز ترین انصاف کی سہولت میسر آئے گی،اس آئینی تر میم کی منظوری عوام کی کا میا بی ہے، جبکہ تحریک انصاف قیادت کا کہنا ہے کہ اب ملک حکمرانوں کے مفادات اور خواہشات کے مطابق چلے گا ،کیونکہ اس آئینی ترمیم کے بعد عوام کے مفادات کا خیال رکھا ہی نہیںجائے گا‘یہ آئینی تر میم عوام کی بھلائی کیلئے نہیں ، بلکہ حکمرانوں کے ہی مفادات کو تحفظ دینے کیلئے منظور کرائی گئی ہے۔
اس ملک میں آج تک جتنی بھی آئینی ترامیم ہو تی رہی ہیں ، کیا ان میں سے کوئی آئینی ترمیم عوام کو براہ راست فائدہ پہنچارہی ہے؟ عوام کے نام پر آئینی ترامیم کے نتائج یا فوائد حاصل کرنے والے ہمیشہ سے کچھ اور ہی لوگ رہے ہیں ،اس بار بھی آئینی تر میم میںجھگڑا چند لوگوں یا اداروں کا ہے اور وہی فائدہ یا نقصان اٹھائیں گے،اس میں عوام کو کیا ملے گا، اچھا ہوتا کہ اس آئینی ترمیم کے ذریعے کوئی ایسا پیج بناتے کہ جس میں سب موجود ہوتے اورمساوی حیثیت میں ہوتے، لیکن ایسا کوئی پیج کبھی بنا ہے

نہ ہی بنے گا کہ جس میں عوام بھی بھرپور طور پر موجود ہوں ، ہر بارعوام کا نام ضرور لیا جاتاہے، لیکن عوام کو کبھی اپنے فیصلوں میں شامل کیا جاتا ہے نہ ہی کبھی شامل کیا جائے گا ،کیو نکہ حکمران اپنے پیج پر عوام کو لا نے کے بجائے خود کو مقتدرہ کے پیج پر لا نا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
اس وقت بھی حکومت اور مقتدرہ ایک پیج پر ہی دکھائی دیے رہے ہیں اور حکو مت وہی کچھ کررہی ہے ،جو کہ اس سے کروایا جارہا ہے ، آئینی تر امیم سے ایک آ زاد ادارے کو اپنا ماتحت بنایا جارہا ہے اور اس پر عوام کے نام کا لیبل لگایا جارہا ہے ،جبکہ اس سے عوام کا کوئی تعلق ہے نہ ہی عوام کو ئی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں،

یہ جھگڑا مقتدرہ اور عدلیہ کے در میان تھا اور اس میںحکو مت کا کند ھا استعمال ہورہاہے، حکو مت اپنے مفاد میں مقتدرہ کو خوش کر نے کیلئے سب کچھ کر کے عوام پر ڈالے جارہی ہے، اگر حکو مت میں ہمت ہے تو صاف کہے کہ فلاں جگہ سے آرڈر آیا کہ فلاں کے خلاف عدم اعتماد منظور کرلو یا عدلیہ کو حکم آتا ہے تو وہ کہے کہ ہمیں باوقار ادارے نے کہا ہے کہ فلاں کے خلاف فیصلہ دویا الیکشن کمیشن کہے کہ ہمیں فارم 45 کو 47 سے بدلنے کا حکم فلاںنے دیا تھا، یہ عوام کا نام لینا اور عوام کے پیچھے چھپناچھوڑ دینا چاہئے اور ان اداروں کا نام جرأت سے لینا چاہئے کہ جہاں سے ڈوریاں ہلائی جاتی ہیںتو پھر عوام بھی ان کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے، لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ان اداروں نے فیصلہ کرلیا ہے

کہ اپنی لڑائی میں ملک کو ڈبو کر ہی چھوڑیں گے۔یہ ملک ہے توسب کچھ ہے ، یہ ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے ، یہ باتیں سب ہی کرتے ہیں ،لیکن اس پر عمل کر نے کیلئے کوئی تیار ہی نہیں ہے ، ایک دوسرے کو دبایا جارہا ہے ، دیوار سے لگایا جارہا ہے اور راستے سے ہٹا یا جارہا ہے ، اس کے بعد کہا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ قومی مفاد میں کیا جارہا ہے ، عوام کی بھلائی کیلئے کیا جارہا ہے ، جبکہ اس میں عوام کی بھلائی کہیںدکھائی دیے رہی ہے نہ ہی کہیں عوام نظر آرہے ہیں ، عوام کو آئینی ترمیم کی طرح دن کو بھاگنے اور راتوں کو جاگنے والے سیاست دانوں کی اشد ضرورت ہے، عوام کو ایسی کوششوں کی ضرورت ہے

، جیسا کہ آئینی ترمیم منظور کراتے ہوئے نظر آتی رہی ہیں، اگر ایک بارایسی ہی کائوشیں حکمران ملک وقوم کے مفادات کے لیے کر گزریں تو کوئی امر مانع نہیں کہ عوام کے در ینہ مسائل حل نہ ہوں یا ملک ترقی نہ کر پائے،ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر تب ہی گامزن ہو سکتا ہے ،جبکہ اہل سیاست ، اہل ریاست کے بجائے عوام کی جانب دیکھیں گے اور اپنے فیصلوں میں عوام کو بھی شامل کر یں گے ،عوام کے فیصلے مانیں گے اور عوام کی رائے کااحترام کریں گے ،اس کے بغیر ملک چل سکتا ہے نہ ہی کبھی آگے بڑھ سکتا ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں