ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین 28

ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین

ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین

ابن بھٹکلی
۔ +966562677707

گلستان میں تخلیق پانے والے، گل، پھول، پھلوں کے مقابلے، جھاڑ،جھنکاڑ، کانٹے، اور بیکار لکڑیاں اور بہت زیادہ مقدار میں سوکھے پتوں کی بھرمار تخلیق پاتی رہتی ہے۔اسی لئے تو، عموماً حضرت انسان تناسبی اعتبار کم مقدار، پھل پھول کے لئے، اتنی بیکار چیزوں کا بوجھ برداشت کرتا پایا جاتا ہے۔ کوئی اگر ان بیکار لایعنی پڑوڈکٹ ہی پر نظر مرکوز رکھے اور شکایت کرتا رہے تو،اسی گلستان میں تخلیق پانے والے، بیشمار پھل پھول سے ہی استفادہ حاصل کرنا بھول جائے۔ یہی وہ گلستان میں تخلیق پانے والے، کم مقدارپھل پھول اس گلستان کو، جیسے صدا شادمان اور ہرا بھرا پر رونق رکھتے ہیں

۔ لاکھوں مختلف اساتذہ کے ہاتھوں تربیت پائے کروڑوں بچوں میں سے، کچھ ہزار لائق بچے ہی، چمنستان بھارت جیسے عالم کی سب سے بڑی جمہوریت، ہزاروں سالہ آسمانی ویدک دھرم، اس چمنستان بھارت کو، صدا ہرا بھرا رکھے، عالم کا اسے بہترین شادمان گلستان باقی بنائے رکھنے، زندگی بھر ممد و مددگار پائے جاتے رہتے ہیں ۔ یہی کچھ کیرالہ ملاپورم کی اس میتھیمیٹکس ٹیچر کے ساتھ ہوا۔ جہاں انکے اپنی اولاد نے، زندگی بھر اسکی کمائی سے استفادہ بعد، جب اسے انکی خدمات درکار تھیں

، اسے ایک بوجھ سمجھ،بے گھر و بے آسرا چھوڑا، اسکی اخلاص پرور تربیت پائی سالوں قبل کی کوئی ایک، اسکی اپنی شاگردہ نے، اسکےبرباد ہوئے چمن کو، دوبارہ سینچ ایک گھر آنگن میں بدل کر جہان رکھ دیا ہے۔ وہ شاگردہ بھی، اپنی استاد کی کماحقہ خدمت کئے، اپنے خالق کائینات کے آگے سرخرو ہوچکی ہیں۔دل سے دعا نکلتی ہے ایسے ہونہار لائق بچوں کے لئے۔

👆یہ عظیم خاتون بھارت کی ریاست کیرالہ ملاپور رام میں میتھیمیٹکس کی ایک نہایت قابل ٹیچر تھیں۔ ایک دن ، ان کی ایک شاگرد نے اپنی اس استاد کو ریلوے اسٹیشن کے فٹ پاتھ پر بھیک مانگتے ہوئے دیکھا – گردش حالات کی وجہ سے ٹیچر نے اپنے سٹوڈنٹ کو نہ پہچانا مگر سٹوڈنٹ انھیں فوراً پہچان گئی اور انھیں کو اس حال میں دیکھ سٹوڈنٹ کو شدید صدمہ اور رنج ہوا –

جب سٹوڈنٹ نے اپنی ٹیچر سے اس افسوسناک حالت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے گھر والوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، مجبوراً انہیں ریلوے اسٹیشن کے فٹ پاتھ پر رہنا پڑا اور بھیک مانگ کر گزارہ کرنا پڑا –

یہ طالبہ اپنے استانی کی درد بھری داستان سن کر ٹوٹ گئی اور زار و قطار رونے لگ گئی، حواس بحال ہونے پر وہ اپنی ٹیچر کو اپنے گھر لے آئی…

طالبہ نے اپنی استانی کو عُمدہ کھانا اور نفیس لباس فراہم کیا اور گھر میں رہنے کے لیے ایک پر آسائش کمرہ دیا – ٹیچر کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے طالبہ نے ان تمام کلاس فیلوز کو کال کرکے جمع کیا جو ان سے میتھیمیٹکس پڑھ چکے تھے – ان تمام کلاس فیلوز نے مل کر ٹیچر کے لیے ایک پرسکون رہائش کا بندوبست کیا –

ٹیچر اہل علم تھیں، ان کے علم اور قابلیت کے باوجود اہلخانہ کا ان کا ساتھ چھوڑ دینا ان کی جہالت پر مہر ہے –
وہ طلباء جن کو کئی سال پہلے ٹیچر نے پڑھایا تھا، آج ان سب طلباء کی ہمدردی اور حمایت انھیں حاصل ہوگئی –

اس طرح شاگردوں نے اپنے محسن استاد کی خدمت کا شرف حاصل کیا – یہ استاد اور شاگرد کے جذباتی بندھن کی ایک لازوال داستان ہے – چند اچھے لوگ اب بھی زندہ ہیں زمانے میں، جن کی وجہ سے تھوڑی بہت بہار یہاں باقی ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں