31

دہشت گردی سے کب جان چھوٹے گی!

دہشت گردی سے کب جان چھوٹے گی!

ملک میں دہشت گردی میں دن بدن نہ صرف نمایاں اضافہ ہورہاہے، بلکہ دہشت گردوں نے افواجِ پاکستان اور پولیس جیسے سکیورٹی اداروں کو ہی اپنی کارروائیوں کا ہدف بنا لیا ہے،بلو چستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی کارروائیاں محض ٹارگٹ کلنگ‘ سڑک کنارے نصب دیسی ساختہ بموں کو ریموٹ کنٹرول سے اُڑا کر فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنانے یا خود کش حملوں تک محدود نہیں رہیں، بلکہ اب پولیس تھانوں ،فوجی چیک پوسٹوں اور ریلوئے اسٹیشن پر بڑے منظم انداز میں حملے ہو رہے ہیں،

گزشتہ روز کوئٹہ ریلوئے اسٹیشن پر خود کش دھماکہ ہواہے ،اس دہشت گر دی کی کاروئی میں پچیس افراد جاں بحق اور بچاس سے زائد زخمی ہوئے ہیں،کوئٹہ کے کمشنر محمد حمزہ شفقات کا کہناہے کہ ریلوے اسٹیشن پرخودکش بم بار سامان کے ساتھ کھلے راستے سے داخل ہوا، ایسے کسی خود کش بم بار کو روکنا انتہائی مشکل ہوتا ہے تاہم دہشت گردی کا خاتمہ کر کے ہی دم لیںگے۔
اگر دکھاجائے تو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں سے صورتحال اتنی ابتر ہو چکی ہے

کہ اب صوبے کے عوام حکام سے ان دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیونکہ ان کارروائیوں سے ان کے کاروبار اور روزمرہ زندگی متاثر ہو رہی ہے،لیکن حکو مت مذ متی بیانات دینے اور سابقہ حکو مت کو مود الزام ٹہرانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کررہی ہے ، افواجِ پاکستان شدت پسندوں سے تندہی سے ضرور لڑ رہی ہیں، لیکن اس میں انتظامیہ اور پولیس کو بھی متحرک کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے،صوبائی حکو مت ،انتظامیہ اور سیکورٹی ادارے جب تک مل کر دہشت گردی کے خلاف نہیں لڑیں گے ، دہشت گردی کاسد باب ہو پائے گا نہ ہی صوبے میں امن قائم ہو پائے گا۔
اس بارے جمعیت علمائے اسلام کے سر براہ مولا نا فضل الر حمن بھی بار ہا کہہ چکے ہیں کہ خیبر پختونخوا اور بلو چستان کے مختلف اضلاع میں اندھیرا چھا جانے کے بعد پولیس تھانوں سے باہر نہیں نکلتی ہے،حکومت کی رٹ ختم ہو چکی ہے اور انتظامیہ بے بسی کی تصویر بنی دکھائی دیتی ہے ، اس لیے ہی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور چھ جماعتی اتحاد برائے تحفظِ آئین کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کو بھی اعلان کرنا پڑاہے کہ ان کی پارٹی جلد ہی بلوچستان کے مختلف مقامات پر ”جرگوں‘‘ کے انعقاد کا سلسلہ شروع کرے گی،

تاکہ صوبے کی شاہراہوں پر لاقانونیت اور جرائم کے واقعات کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرائی جا سکے،لیکن اتحادیوں کو آئینی ترامیم لانے اور بل منظور کر نے سے ہی فر صت نہیں ہے ، اتحادی حکو مت کی تر جیحات میں عوام کے مسائل ہیں نہ ہی دہشت گردی کے سد باب پر سنجیدگی دکھائی دیتی ہے ، اتحادی حکومت عوام کے جان و مال کو تحفظ دینے میں ناکام ہو نے کے باوجود اقتدار کے مزے لوٹے جارہی ہے اوردہشت گردی کے سد باب کا سارا بوجھ سیکورٹی اداروں پر ہی ڈالے جارہی ہے۔
حکو مت خود کچھ کر نے کے بجائے سیکورٹی اداروں کو مزید اختیارات دے کر ان کے ہاتھ مضبوط کرنے میں لگی ہے ،لیکن اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اختیارات تفویض کرنے سے دہشت گردانہ کارروائیوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ایسی ہی حکمت عملی پر عملدرآمد ہو رہا ہے، مگر یہ کوششیں کچھ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی ہے، ایک کے بعد ایک عسکری آپریشنز سے وقتی طور پر کچھ دیر کیلئے امن تو بحال ہو جاتا ہے اور دہشت گرد عناصر پسپائی اختیار کر لیتے ہیں

، لیکن کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ ملکی سلامتی کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں، گو کہ ہمارے ادارے جوانمردی سے ان کا مقابلہ کر رہے ہیں،لیکن اس کا مکمل سد باب نہیں کررپارہے ہیں ،اس کا مطلب ہے کہ ہماری حکمت عملی میںکہیںخامیاں موجود ہیں، اس فالٹ لائن کو تلاش کرنا اور اسے فوری طور پر دور کرنا انتہائی ضروری ہے ،اس کے بغیر کبھی مر وجہ نتائج حاصل نہیں کر پائیں گے۔
اس وقت پاکستان انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہے، اس کا سب کو ہی ادارک کر نا ہو گا ، آپس کے اختلافات کو جہاں پس پشت ڈالنا ہو گا ،

وہیں اپنے فیصلوں میں عوام کو بھی شامل کر نا ہو گا ، عوام کی حمایت کے بغیر کوئی جنگ جیتی جا سکتی ہے نہ ہی ملک میں امن و خوشحالی لائی جاسکتی ہے ، انسدادِ دہشت گردی کے لیے جو بھی حکمت عملی تیار کی جائے، اس میں صرف طاقت کے استعمال پر اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ اس میں سیاسی پہلوئوں اور عوام کی رائے کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے ،ریاست مخالف اور ریاست سے ناراض لوگوں میں تفر یق کر نی چاہئے اور اس کے مطابق ہی کوئی حکمت عملی اپنانی چاہئے ،لیکن اس سے پہلے ملک میں سیاسی استحکام لانا چاہئے، کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیر کوئی جنگ جیتی جا سکتی ہے نہ ہی دہشت گردی سے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں