ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین 12

فی زمانہ مشہور کئے کرائے جانے والے بزرگان دین و اولیاء اللہ اور ہم بدعتی مسلمان

فی زمانہ مشہور کئے کرائے جانے والے بزرگان دین و اولیاء اللہ اور ہم بدعتی مسلمان

نقاش نائطی
۔ +966562677707

ہمارے ایک دوست کی کمپنی الدوسری دمام میں, ایکونٹنٹ کی پوزیشن پر شمالی ھند کا ایک طبیعتا” اچھا برہمن نوجوان جاب ویزہ پر آیا تھا۔ شادی سے پہلے دو سال تو شادی کے بعد چار سال,جملہ چھ سال نوکری کے بعد, اسنے استغفی دئیے خروج جانا چاہا۔ لیکن چونکہ وہ انتہائی اچھے اخلاق سے ایماندارنہ کام کرتا آیا تھا اسلئے ارباب اسکی تنخواہ میں اضافہ کئے، اس سے مزید کچھ سال خدمات لینا چاہتے تھے

لیکن وہ کسی صورت مزید کام کرنے راضی نہ تھا۔تحقیق کرنے پر اسنے جو راز کی بات بتائی وہ ہم بدعتی مسلمانوں کے لئے سبق لینے لائق بات تھی۔دراصل اسنے بتایا کہ”اس کا باپ تو، کسی اچھے مندر کا پروہت پجاری تھا اس نے اپنی کمآئی سے شہر کے باہر جو باغ والی زمین لئے گھر بنایا تھا اس کے پاس سے،اب جب سے، مرکزی سرکار نے نیشنل ہائی وے بائی پاس گزارنے کا فیصلہ کیا ہے، اس وقت سے اسکے ذہن میں ایک پلان تھا کہ اسکے باغ کے جس کونے میں ایک پرانا پیپل کا درخت ہے،

چونکہ پاس سے گزرنے والی شاہ راہ کے پاس ہی ہے، وہ وہاں بھولے بابا کا ایک عظیم الشان فیملی مندر بنانا چاہتا ہے، جس کی تعمیر کے لئے، اس کے پاس فنڈ کی کمی تھی، اور عوامی چندے سے مندر بنانے کے بجائے، اپنے فنڈ سے اپنا فیملی مندر تعمیر کرنا چاہتا تھا اسی لئے وہ پیسے جمع کرنے ہی کی نیت سے عربوں کے کھاڑی دیش آیا تھا۔اب ان چھ سالوں میں، اس پیپل کے درخت کے پاس ایک چھوٹا مندر تعمیر کرنے، اس کے پاس فنڈ جمع ہوچکا یے اس لئے وہ اب سعودی ویزہ کینسل کر واپس جانا چاہتا ہے”

یہ سب سن کے، اسکے ساتھ کام کرنے والے دوست نے کہا “ٹھیک ہے تو مندر بنارہا ہے تو بنا! لیکن دو سال تو آکر آور کام کرلے،ارباب تیری تنخواہ بھی بڑھا رہا ہے نا! ویسے بھی تیرا خواب بڑا مندر تعمیر کرنے کا ہے، دو چار سال نوکری کرنے سے وہ خواب بھی پورا ہوجائیگا”۔ اسنے مسکراتے ہوئے کہا،”ابھی جو میں چھوٹا مندر بناؤنگا نا! میں خود وہاں رہ کر محنت کرتے ہوئے، ہائی وے سے گزرنے والے ٹرک ڈرائیوروں میں، اپنے مندر کی کرامات مشہور کرائے، آپنے مندر کے کرشمات کو ہرسوپھیلانے کامیاب ہوجاؤنگا نا، تو دیکھو کیسے مندر میں آنے والے پرساد سے دو ایک سالوں میں، وہاں بڑا مندر تعمیر کرنے کامیاب ہوتا ہوں۔

دو سال یہاں پھر لگانے کے بجائے، وہاں اپنے مندر ناموری کےلئے، میرے ایک دو سال لگیں گے اور اس ہائی وے سے گزرنے والے 25 فیصد ٹرک بھی رک کر آشیرواد لینے لگیں تو، پھر اس خاندانی مندر کی پوری کمائی ہمارے گھر ہی تو آنی ہے۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے؟ اپنے چمتکار سے مشہور مندروں میں روزانہ کتنا چڑھاوا آتا ہے اور دان پیٹیوں میں شردھالو اپنی کالی کمائی کو سفید کرنے یا اپنی کمائی کمانے بھگوان کا آشیرواد پانے، کتنا کچھ دان پیٹیوں میں چپکے سے ڈال جاتے ہیں۔ مندر بنانے کے اپنے مشن پر اگر میں کامیاب ہوگیا تو،نہ صرف میں، بالکہ میرے بچے اور انکے بچوں کا بھی کلیاں ہوجائیگا۔

ایک آدمی یا ایک گھر والے کتنا کچھ کماسکتے ہیں؟ لیکن یہاں ہزاروں لاکھوں لوگوں کی کالی کمائی کا حصہ، بنا مانگے صدا آتا ہی رہتا ہے۔ ہم انسان اپنے گھر والے سگے رشتہ دار بھائی بہنوں کو بھلے ہی دھوکا دیں،لیکن بھگوان کو دھوکا دئیے اپنی قسمت بگاڑنے کی ہمت، ذرا سی بھی مذہبی آستھا رکھنے والے کسی انسان کی نہیں ہوتی ہے۔ یہ ہم ھندوؤں میں ہی نہیں، دنیا کے ہر مذہب ماننے والے ان پڑھ جاہل گنواروں کے ساتھ، اعلی تعلیم یافتہ بھی چاہے وہ ناستھک ہی کیوں نہ ہوں اپنے بھگوان کو ناراض کئے، اپنی قسمت بگاڑنا کوئی نہیں چاہتے ہیں

اور جب تک اپنے اپنے بھگوانون پر انکی آستھا شردھا قائم رہتی ہے، ہم جیسے انکے اور بھگوان کے درمیان والے برہمن پجاری ہوں یا تمہارے مسلمانوں کے درگاہوں کے پگڑی والے بزرگ مولوی ابتدائی چند سالوں کی محنت کے بعد زندگی بھر ان مندروں درگاہوں سے بےتحاشا کمائے عیش کرتے پائے جاتے ہیں”
ہزاروں سالہ آسمانی ویدک دھرم والے جابجا ہزاروں مندروں کے درمیان رہتے رہتے ان برہمن ہجاریوں کی دیکھا دیکھی،ہم مسلمانوں میں سے بعض مسلم برہمن نما مجاوروں نے، اپنے ہم مذہبوں کو لوٹنے، بزرگوں کے مزاروں پر بڑے بڑے درگاہ تعمیر کئے، ہمہ وقت وہاں شردھالوؤں کی بھیڑ اکھٹی رکھے، انکے صدا کے اس شور غوغا سے،قبر میں دفن واقعتاً اگر بزرگ بھی ہیں تو، انہیں شور شرابوں سے صدا پریشان کئے، انکی اور انکے مریدوں کی طرف سے پھیلائی، اس بزرگ کی کرامات سے،ہزاروں شردھالوؤں سے روزانہ کی بنیاد پر درگاہوں کے متولی صاحبان اور انکے بچے لاکھوں کمائے عیش و عشرت کیا نہیں کررہے ہیں؟
ویسے شہر بھٹکل اپنے مذہبی آثاث اور بزرگان دین کی دعاؤں کے طفیل، نہ صرف جنوب ھند بالکہ پورے بھارت و عالم میں جہاں مشہور ہےوہاں اسی کے دہے کا مشہور چاء گرم نامی مجذوب، پاگل تھا یا کہ واقعتاً کوئی مجذوب بزرگ؟ ایسا لگتا تھا کہ برسوں سے اس نے نہایا تک نہ ہو. کپڑے گندے پهٹے پرانے ، پاؤں میں کبھی پهٹا جوتا تو کبھی ننگے پیر،بے مقصد سی زندگی۔ نہ کسی سے کچھ بولتا تھا نہ کسی کی کچھ سنتا تھا.

داڑهی بھی بے ترتیب بڑھی ہوئی میلی سی، صدا کا خاموش، کبھی کبھی دھیرے آواز میں کچھ بڑبڑاتا تھا. ہاں ایک بات اس کی مخصوص تھی. چلتے چلتے اکثر کسی الکٹرک کھمبے یا ٹیلیفون کھمبے کا ایک دو چکر وہ لگا جاتا تھا. چاء کا بڑا رسیا تھا. کوئی چائے اس کے سامنے رکھ دیتا تو گرم گرم چائے،حلق میں انڈیل دیتا تھا. اکٹر میں روڈ ملبار بیکری کے آس پاس چہل قدمی کرتا ملتا تھا. غالب گمان تھا

وہ چائے گرم کے نام مشہور، پاگل یا مجذوب کیرالہ کا باشندہ لگتا تھا.اس کو آل اولاد کی پرورش کی فکر تھی نہ بیوی کے طنز و طعن سننے کا ڈر، نہ کمانے کی فکر، نہ کھانے پینے کے اہتمام کی ضرورت. نہ نماز نہ روزہ کی فکر، کسی نے اس کے آگے کچھ ڈال دیا تو کھا لیتا تھا. کبهی بھوک لگتی ملبار بیکری کے سامنے کهڑے ٹیلیفون کھمبے کا ایک دو طواف کیا کرتا تھا، بیکری والے پیپر کے ٹکڑے پر کچھ بسکیٹ رکهدیتے تھے وہ کھالیتا تھا، ھندو بهٹ ہوٹل کے سامنے کچھ لمحہ کهڑا ہوجاتا تو چاء بھی بن مانگے

،اسے پیش کی جاتی تھی. گاوں کے ایک مرحوم بزرگ اللە انکو غریق رحمت کرے، اسے اپنے گھر لے جاکر آکثر و بیشتر اچھا کھانا کھلا دیتے تھے، تو دوسرے ایک بزرگ، رئیس نے اس کے آخری ایام میں، اپنے گھر کے پچھواڑے سامان گھر (گهوٹو) میں کافی دنوں اسے رکھ کر، اس کا علاج و معالجہ و دیکھ ریکھ، ذاتی نگرانی میں کروائی تھی. اللہ انکی بھی بال بال مغفرت کرے.
ہمارے لڑکپن میں اس پاگل کی پزیرائی کا سبب ان بزرگ سے پوچھتے تو جواب ملتا تھا، “وہ پاگل نہیں مجذوب بزرگ یے”.
مجذوب ،ایک ایسا بزرگ جو دنیا و مافیها سے بے خبر اپنے معشوق(اللہ) کی فکر میں سدا ڈوبا رہتا ہے.ایک ایسے ہی مجذوب نما واقعتا” بزرگ کو ہم نے اپنے لڑکپن میں اکثر دیکھا تها، نماز روزے تہجد واشراق و چاشت کے پابند، اکثر و بیشتر تنہائی میں دونوں ہاتھ اٹھائے، آسمان کے طرف ٹکٹکی باندھے کھڑے رہتے تھے. گویا اپنے اللہ سے دل ہی دل کچھ مانگ رہے ہوں. خاموش ایسے منہمک کھڑے رہتے کہ، پاس سے گزرنے والوں کے سلام کا جواب تک نہ دیتے تھے. لڑکپن کی شرارت،ہم بچے ان کی پهیلی ہتهیلی پر ایک پیسہ دو پانچ پیسے کے سکے ڈال دیتے تھے ان کو احساس تک نہ رہتا تھا.

لیکن کچھ وقت بعد جب وہ ہوش میں آتے، تو ہتهیلی میں پڑے کچھ سکوں کو دیکھتے، آس پاس کا جائزہ لیتے، پھر سکوں کو جیب میں رکھ لیتے تھے.اندر مسجد میں جا وضو کئے، نماز پڑھنے لگتے تھے،اپنے رب سے لؤ لگانے کی ان کی یہ مجذوبیت سمجھ میں آتی ہے، اس لئے کہ وہ صوم و صلواة نفل و سنن و اذکار کے پابند تھے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھتے تھے.معاشرتی اجتماعی کاموں میں آگے آگے رہتے پائے جاتے تھے۔ لیکن ایسے چاء گرم پاگلوں کو مجذوب سمجھ کر،ان کی پزیرائی کرنا ان کی عزت و احترام کرنا، جنہیں حقوق العباد اور حقوق اللہ کی تک فکر نہ ہو. جو زندگی رہتے اللہ کے بندوں کے محتاج ہوں اور مابعد موت بندوں کی مشکل کشائی کے دعویدار .. یہ کیسے بزرگ اور مشکل کشا بن سکتے ہیں؟

اس چاء گرم مجذوب نما پاگل اور تہجد گزار صوم و صلاہ کے پابند،مخلوق خدا کا خیال رکھنے والے، کبھی کبھار کے واقعتا مجذوب نما بزرگ، بهٹکل آل عرب، صحیح العقیدہ مسلم علاقے میں انتقال کرجانے کی وجہ، یہاں انکا کوئی مزار یا درگاہ نہ بناپایا، اگر یہی چاء گرم پاگل نما مجذوب، اللہ کو چھوڑ مردوں سے مانگنے والے قبر پرستوں کے بیچ مرجاتا تو، اس کا مزار بن، مرنے کے بعد ہزاروں کی مراد پوری کر رہا ہوتا.

کچھ برسوں قبل ایسے ہی،مہینوں بغیر نہائے، ایک میلے کچیلے پاگل کی موت کے بعد، اسے مجذوب بزرگ قرار دیئے، ممبئی بھنڈی بازار حافظکا آسٹریٹ، جماعت والی فنڈ بلڈنگ کے نیچے، کروڑوں کی ملکیت سے دوکانیں خرید کئے، اس پاگل نما مجذوب کا مزار بناتے کیا ہم نے،اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا یے؟جہاں اس مجذوب کی بھی پسندیدہ ممبئی کی مشہور کٹنگ چاء،اس کے ہزاروں شردھالوؤں کو 24 ساعتی ہمہ وقت گرم گرم، مفت پلائے جانے پر، ہزاروں روپئیے روزانہ کی بنیاد خرچ کئے جاتے ہیں.
ہند و پاک کے بیشمار علاقوں میں، ایسے کتنے، کتے پیر، گدھے پیر، گھڑیال بابا (مگر مچھ) گهڑی بابا،گهنگرو بابا، تھڑے باز شرابی مسیحی انگریز بابا کے ان گنت مزار ہیں جن کے آگے نام نہاد لاکھوں کروڑوں مسلمان قبر پرستی سے اور حاجت روائی سے، اپنے ایمان کو برباد کر رہے ہوتے ہیں. حالیہ سائبر میڈیا پر گردش کرتی گجرات کے ایک اپنے وقت کے بدمعاش نشے باز کو مرنے سے قبل،کیسے بدعتی مسلمان بزرگ سمجھ تعظیم سے ملنے آتے ہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ کل کو اس نشئے غنڈے کے مرنے کے بعد اس کی تربت پر کوئی بڑا مزار یا درگاہ بنا ڈالے تو دس بیس پچاس سال بعد آنے والے اسلامی تعلیمات بے بہرہ مسلمان نسل در نسل سنی سناتے آئی فرضی کہانیوں پر اس نشاباز سابقہ غنڈے کو بھی، اپنے وقت کا ولی اور علامہ ٹھہرائے ہاتے جاسکتے ہیں۔اور شرک و بدعات کا بازار سنوار رکھے دیکھا جا سکتا ہے۔ لاکھوں جمعہ مساجد میں ہر ہفتہ دئیے جانے والے خطبوں میں مکرر دہرائی جانے والی وہ حدیث
بقول رسول الله ﷺ :- “كل بدعةٍ ضلالة، وكل ضلالةٍ في النار” زاد النسائي بإسناد حسن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق: “ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں ہے” ۔النسائی نے اسے اچھی سند کے ساتھ شامل کیا۔
ہم حنفیت،شافعیت، مقلدیت،سلفیت، مالکیت، حنبلیت،ندوئیت،بریلوئیت، دیوبندیت، طریقت و نقش بندیت، اپنے اپنے عقیدے کے پکے سفیر بنے پھرتے ہیں،لیکن کیا ہم اپنے اسلاف صحابہ رضوان اللہ اجمعین جیسے پکے موحد سنتوں ہر عمل پیرا مسلمان بھی باقی بچے ہیں یا نہیں یہ دیکھنا اور خود محاسبہ کرنا ہمارا اپنا کام ہے۔ بیسیوں ہزار سال قبل والے آسمانی ویدک منو وادی (حضرت نوح علیہ السلام) سناتن دھرمی ھندو قوم اپنے سناتن دھرمی توحیدی عقیدے کے خلاف ہزاروں رام و شنکر کی پوجا کرنے لگے ہیں تو کیا ہوا کیا

ہم نام نہاد پکے سچے موحد مسلمان کہے جانے والے ہم مسلمان، کیسے اپنے درمیان والے اپنے وقت کے آواراہ غنڈے شرابی جواری عقل و فہم سے ماورا ملنگ نما انسانوں کو،جیتے جی بزرگ قرار دئیے، انکی عزت وتکریم کئے انکے مرنے کے بعد انہیں بزرگ ولی اللہ کی طرح انکی قبر پر مزار و درگاہ تعمیر کراتے کیا نہیں پائے جاتے ہیں؟اللە ہی ہمارے ایمان کی حفاظت کرے اور ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین و سلف صالحین والے دین اسلام پر عمل پیرا رکھے۔ وما التوفیق الا باللہ

فی زمانہ مشہور کئے کرائے جانے والے بزرگان دین و اولیاء اللہ اور ہم بدعتی مسلمان عالم کے کونے کونے میں، روزانہ کی بنیاد پر، ایسے کتنے شرابیوں نشے بازوں کو مجذوب بزرگ قرار دئیے، انکی وفات بعد انکی تربتوں پر، انکے مزار و درگاہیں تعمیر کرائے،دس بیس چالیس سال بعد والے ہم مسلمانوں کے ولی اللہ، اولیاء اسلام جو پیدا کئے جارہے ہیں، انکے ذمہ دار ہم صحیح حقائق جاننے والے ہم مسلمان کیا نہیں ہیں؟ آج کے سیدھے سادھے مسلم امہ کے اسلامی بنیادی عقائد و ایمان کو بگاڑنے والے، خود ساختہ اہل سنہ و الجماعہ مبارک نام والے بریلویوں کے فتنوں سے اللہ ہی ہم مسلم قوم کو آمان میں رکھے۔ ابن بھٹکلی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں