18

مارو مر جائو کیلئے کون نکلے گا !

مارو مر جائو کیلئے کون نکلے گا !

ملک کی سیاسی فضا ء میں کشید گی کچھ زیادہ ہی بڑھتی جا رہی ہے ، ایک طرف بانی پی ٹی آئی عمران خان نے احتجاج کی فائنل کال دیے دی ہے تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی وفاقی حکو مت سے شکوہ کرتے دکھائی دیے رہے ہیں کہ وفاقی حکومت قانون سازی کے وقت طے کردہ باتوں سے پھر گئی ہے،اس پر وزیر اعظم کے مشیر را ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے طے کر ہی لیا ہے

کہ مارناہے یا مر جانا ہے تو پھر کیا کیا جاسکتا ہے، یہ سر پر کفن باندھ کر نکلنے کے اعلانات کریں گے تو پھر ان کے خلاف سخت کارروائی بھی ہوگی، جبکہ بلاول بھٹو زرداری کے سارے شکوئے وزیر اعظم سے ایک ملاقات کے بعد دور ہو جائیں گے۔اگر دیکھا جائے تو جب بھی تحریک انصاف احتجاج کی کوئی کال دیتی ہے ، پیپلز پارٹی اپنے شکو ئے شکایات کا پنڈروا بکس کھول لیتی ہے ،اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہورہا ہے ، ایک طرف حکو مت تحریک انصاف کے احتجاج سے نپٹنے کی تیاری کررہی ہے تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کوراضی کرنے میں لگی ہوئی ہے ، رانا ثنا اللہ کا کہنا بالکل بجا ہے

کہ چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کے سارے شکوئے شکایات وزیر اعظم سے ایک ملاقات کی مار ہیں ، وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد سارے ہی گلے شکوئے دور ہو جائیں گے ، جیسا کہ اس سے قبل ہو تے رہے ہیں ، لیکن تحر یک انصاف کا احتجاج نہیں رک پائے گا ، کیو نکہ انہوں نے تومارنا ہے یا مر جانے کا تہیہ کر رکھاہے ۔یہ بات تو سچ ہے کہ تحریک انصاف کو ما رو یا مر جائو پر مجبور کر دیا گیا ہے ، لیکن اس بات کو بھی جھٹلا یا نہیں جا سکتا کہ
اس وقت مذکورہ بالا دونوں صوبوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنا سیاسی وجود بڑی حد تک کھو چکی ہیں،شاید اس لیے ہی بلاول بھٹو اپنا راستہ (ن) لیگی حکومت سے الگ کرنے میں کو شاں ہیںاور شکو ئے شکایات کرتے دکھائی دیے رہے ہیں، اگر اس موقع پر پی ٹی آئی پھونک پھونک کر قدم رکھے گی اور کوئی موثرسیاسی حکمت عملی تیار کرے گی تو بآسانی اگلا الیکشن جیت سکتی ہیاور اقتدار میں آسکتی ہے ، لیکن اگر احتجاج کی کسی جذباتی کال کے نتیجے میں تحریک انصاف نقصان اٹھا بیٹھی تو ان دونوں پارٹیوں کی غیر مقبولیت کی بنا پر خالی میدان کو پُر کرنے سے محروم رہ جائے گی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ تحریک انصاف کو سنبھلنے دیا جارہا ہے نہ ہی کوئی مو ثر حکمت عملی واضح کر نے کا موقع دیا جارہا ہے ،اس لیے ہی احتجاج کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے لیکن یہاں پر احتجاجی تحریک کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں ہے، اس طرح کی احتجاجی تحریک جب بھی چلی ہے تو اس کے لیے بالعموم اپوزیشن کی اکثر جماعتوں کا اتحاد بنایا جاتا رہا ہے، سیاسی اتحادوں کی طرف سے چلائی گئی

تحریکیں بظاہر کسی حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوئیں، مگر اس کا زیادہ فائدہ مقتدرہ نے ہی خوب اٹھایا ہے، اس بار بھی ایسا ہی کچھ لگ رہا ہے کہ تحر یک انصاف احتجاجی تحریک چلائے گی اور اس کا سارا فائد ہ مقتدرہ ہی اُٹھائے گی۔اس حوالے سے معاملات طے ہو نے کی باز گشت سنائی دیے رہی ہے ، حکو مت کے وزراء بھی مختلف خدشات کا اظہار کررہے ہیں ،وزیر دفاع خواجہ آصف بھی بتانے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ہماری حکومت کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہائبرڈ ماڈل ہے ، جبکہ مقتدرہ خود کو سیاست سے الگ رکھنے کی دعوئیدار ہے ،لیکن یہ بھی کہا جارہا ہے کہ تحریک انصاف احتجاج کے پیچھے بھی کوئی کار فر ما ہے

، تحر یک انصاف کو باہر حال خوب سوچ سمجھ کر مستقبل کے بارے اپنا فیصلہ کرنا ہو گا کہ،کہیں اُن کے ساتھ ایک بار پھر کو ئی ہاتھ نہ ہو جائے اور انہیں بعدازاں اپنے کئے پر پچھتا نا پڑے،تاہم اب عمران خان اپنی ہمشیرہ کے ذریعے احتجاج کی فائنل کال دے چکے ہیں، لیکن کیا اس پر پارٹی قیادت نظرثانی کرانے میں کامیاب جائے گی یا چو بیس نو مبر کو مارو یا مر جائو کیلئے سڑ کوں پرنکل پڑے گی ۔
یہ کو ئی مانے نہ مانے ، مگر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اِس وقت عوام کا سیاسی شعور اپنی بالائی حد کو چھو رہا ہے، کسی کو ہوش آئے یا نہ آئے، عوام کو ہوش آ چکا ہے اوراس کا ظہار عام انتخابات میں کر دیا گیا ہے ، اس عوام کی رائے کوکسی بحث میں اُلجھا کر نظر اندازکیا جا سکتا نہ ہی عوام مخالف حکو مت لا کر جھٹلایا جاسکتا ہے ، ایک طرف اشرافیہ اپنے بچاؤ کے لئے نت نئے ہتھکنڈے آزما رہی ہے

تو دوسری جانب عوام کی شعوری آنکھ اُنہیں ایسے مناظر دکھا رہی ہے، جو کہ یہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں ، اس وقت ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کرسیاست کرنے کی حکمت عملی دریا برد ہو چکی ہے، اب عوام کوئی عملی اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں ، اس غلامانہ زندگی سے آزادی چاہتے ہیں اور اس آزادی کیلئے مارنا یا مر جانا چاہتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں