26

سیاسی تلخیاں ختم کر نا ہوں گی !

سیاسی تلخیاں ختم کر نا ہوں گی !

ملک میں ایک فائنل کال کے نتائج بھگتنے کے بعد ایک اور احتجاج کی باز گشت سنائی دینے لگی ہے ،تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی نے بھرپور تیاری کیساتھ دوبارہ اسلام آباد جانیکا فیصلہ کرلیا ہے،اس بار کیا ایسا ہو جائے گا ،جو کہ پچھلی بار نہیں ہو سکا ہے ، اس بار پہلے سے بھی زیادہ تصادم اور پہلے سے بھی زیادہ نقصان ہو سکتا ہے ،اس احتجاجی سیاست کے بڑھتے رجحان کو دیکھتے ہوئے ہی مختلف طبقات مکالمے پر زور دیے رہے ہیں ، کل جماعتی کانفرنس اور ایک نئے عمرانی معاہدے کی اہمیت اجاگر کررہے ہیں، مگر اس حوالے سے جنہوں عملی شکل دینی ہے‘ وہ اس کیلئے سنجیدہ ہی دکھائی نہیں دیے رہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے توحکو مت سیاسی انتقام کی روش چھوڑ رہی ہے نہ ہی اپوزیشن احتجاج سے دست بر دار ہورہی ہے تو پھر ملک میں سیاسی انتشار کا خاتمہ کیسے ہو پائے گا ، ملک میں استحکام لا نے کیلئے حکو مت اور اپوزیشن دونوں کو ہی پیچھے ہٹنا ہو گا ، لیکن دونوں ہی پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہے ، اس سے ملک و عوام کا نقصان ہورہا ہے ، لیکن اس کی کوئی پرواہ ہے نہ کوئی احساس کررہا ہے

، ہر کوئی اپنے حصول مفاد میں سب کچھ ہی دائو پر لگائے جارہا ہے اور ایک دوسرے کو ہی مود الزام ٹہرائے جارہا ہے ، جبکہ دونوں ہی برابر کے شر یک کار ہیں اور دونوں ہی برابر کے ذمہ دار ہیں ، لیکن اس کا خمیازہ ملک و عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے ۔ہماری سیاسی قیادت شاید اس بات کا ادراک ہی نہیں کر پا رہی ہے کہ دو سیاسی حریفوں کی لڑائی انہی تک محدود نہیں رہتی ہے، بلکہ ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ سیاسی نظام کو بھی تلپٹ کر دیتی ہے تو پھر ملک میں کیسے معاشی استحکام آئے گا

اور کیسے عوام کی زند گی میں کوئی تبد یلی آئے گی؟اس وقت تک عوامی یا معاشی سد ھار کی کوئی کوشش ثمرآور نہیں ہو سکتی، جب تک کہ سیاسی انتشار کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا ،اس کے لیے فریقین دو قدم پیچھے ہٹ کر مل بیٹھنا ہو گا ، جمہوری معاشروں میں مسائل دست گر یباں ہو کر یا سڑکوں پر احتجاج کر کے نہیں‘ بلکہ منتخب ایوانوں میں مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے حل کیے جاتے ہیں،سیاست کو حکمت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جو سیاسی اقدام حکمت اور افہام و تفہیم سے عاری ہو وہ انتشار کے راستے کھول دیتا ہے۔
اس ملک کی سیاسی قیادت کو اب محاذ آرائی ترک کر کے‘ مل بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل نکالنا چاہیے،فریقین میں برف پگھلانے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ایک مثبت کوشش ہو سکتی ہے، ماضی قریب میں متعدد بار اے پی سی کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیا جاتا رہا ہے ،مگر اس پر کوئی عملی پیشرفت نہیں ہو سکی ، رواں سال جولائی میں حکومت نے اے پی سی بلانے کا اعلان کیا تھا تو پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سمیت تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اس میں شمولیت کی ہامی بھری تھی ،

مگر اس کا بھی انعقاد نہ ہو سکا، کوئی نہ کوئی روکاوٹ آڑے آرہی ہے ، کوئی جمہوریت مخالف قوت اپنا کام دکھا رہی ہے ، اگرسیاسی مسائل کو سیاسی بات چیت کے ذریعے حل نہیں کیا جائے گا تو پھر دوسرا آپشن کیا رہ جاتا ہے؟ زور آزمائی اور طاقت کا استعمال کسی مسئلے کا حل ہے نہ ہی اس سے کبھی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
اس بارے حکو مت کو جہاں سو چنا ہو گا ،وہیں اس پرپی ٹی آئی کے ذمہ داران کو بھی غور کر نا ہو گا کہ آئے دن کے احتجاجوں اور دھرنوں کی مشق کا حاصل کیاہے؟دنیا میں جگ ہنسائی الگ ہورہی ہے ، ہمیں ادراک کرنا ہو گا کہ ہم اس وقت ایک دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اورموثر حکمت عملی کے بغیر زور آزمائی سے مشکلات میں اضافہ اور توانائی کا ضیاع ہی ہو گا ، اس کوشش سے مزید گہری دلدل میں ہی دھنستے چلے جائیں گے،اس گہری دلدل سے نکلنے کے لیے تدبر و حکمت اور باہمی کوششوں کی ضرورت ہے، سیاسی تلخیاں ختم کر نے کی ضرورت ہے ،اپنے معاملات خود حل کر نے اور اپنے فیصلے خود ہی کر نے کی ضرورت ہے ، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر سب کچھ دوسرے ہی کر یں گے ، جو کہ ان کیلئے قابل قبول نہیں ہوں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں