ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین 116

500 سالہ بابری مسجد سے، 2 سالہ بھویہ رام مندر تک قانونی نکتہ نظر سے

500 سالہ بابری مسجد سے، 2 سالہ بھویہ رام مندر تک قانونی نکتہ نظر سے

۔ نقاش نائطی
نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلوزن دہلی
۔ +966562677707

“ھندوشدت پسندوں کی طرف سے مسلمانوں کی ہر مسجد کے نیچے مندر تلاشتے،نفرتی نظریہ کا توڑ”
پانچ سو سالہ تمام تر قانونی کاغذی ڈاکومنٹ اور حکومت وقت کی طرف سے1949 مسجد ٹالا لگوائےجاتے،مسلمانوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے سے روکے جاتے وقت تک، بابری مسجد ہم مسلمانوں کے قبضہ و استعمال میں رہے تمام تر ثبوتوں اور سپریم کورٹ کی طرف سے، مسجد آراضی رام مندر کے حوالے کئے جاتے وقت، دئیے گئے

فیصلہ مطابق، سپریم کورٹ کے اس اقرار کے پیش نظرکہ اکثریتی ھندو برادری کے ماقبل آزادی ھند والے اس دعوے کے پیش نظر، باوجود سو سالہ تحقیق و متعدد دفعہ کھدائی کے، بادشاہ وقت ظہیر الدین محمد بابر کی شہنشاہیت میں، کسی پرانے رام جنم استھان مندر کو توڑ کر، بابری مسجد بنائے جانے والے ھندو فریق کے الزام کو مستقل کوشش باوجود ثابت نہ کئے جاتے

پس منظر و اقرار عدالت عالیہ بعد بھی، اس عالم کی سب سے بڑی سیکولر عدالت نے، دستور ھند کے اثاث و اعلی اقدار کے خلاف، ھندو اکثریتی آبادی کی استھا کے پیش نظر، تمام تر قانونی و قبضہ والی پانچ سو سالہ بابری مسجد اراضی، جو قاتل بابری مسجد ذمہ دار ٹولے ہی کے سپرد کی تھی، کیوں نہ دیش کی سب سے بڑی عدلیہ سپریم کورٹ، آج بھارت کے ہزاروں سالہ آسمانی سناتن دھرمی آعلی گنگا جمنی اقدار کے پیش نظر، از سر نؤ اپنے فیصلہ سے، اس بابری مسجد آراضی کو، 300 ملین ہم ہندستانی مسلمانون کے

،اس 1445 سالہ عقیدے آستھا کے مطابق، کہ ایک مرتبہ تعمیر مسجد، تاقیامت مسجد باقی رہتی ہے، اور چونکہ رام جنم استھان کے نام سے،کئی مندر نہ صرف ایودھیہ نگری بلکہ دیش کے کئی حصوں میں، پہلے سے قائم موجود ہےاس لئے9 نومبر 2019 سپریم کورٹ کے دئیے فیصلےکو از سر نؤ، غور و تدبر کرتے ہوئے، عالم کی 750 کروڑ مختلف مذہبی انسانیت کے سامنے، سناتن دھرمی ہزاروں سالہ اعلی اقدار انصاف، گنگا

جمنی مختلف المذہبی اقدار، انسانیت درمیاں باقی رکھنے ہی کے لئے، وہ متنازع بابری مسجد والی زمین اور اس کے اطراف والی تمام اوقاف و دیگر زمین، جو حکومت وقت نے، اپنی تحویل میں لئے، دوبارہ مندر ٹرسٹ کے تحویل کی تھیں، اسے بھی دوبارہ مسلمانوں کے حوالے کی جائے اور بابری مسجد اراضی پر تعمیر شدہ بھویہ رام مندر کو، کئی دوسرے رام جنم مندروں کی طرح،کہیں اور منتقل کیا جائے۔
مغل شہنشاہ ظہیرالدین محمد بابر سے منسوب بابری مسجد شہنشاءبابر نے نہیں تعمیر کروائی تھی، لودھی حکمرانوں کے خلاف اودھ اور بنگال کی اپنی مہم کے دوران، شہنشاء بابر اس راستے سے چونکہ گزرے تھے۔ اس لئےان کے ایک کمانڈر میر باقی نے، 1528 میں بابری مسجد تعمیر کرائی تھی۔ یہ مسجد شہر کے وسط میں مٹی کے ایک اونچے ٹیلے پر تعمیر کی گئی تھی۔
یہ شہر کی سب سے بڑی مسجد تھی۔ اس میں تین بڑے گنبد تھے اور گنبد اور صحن کے بعد کھلا ہوا حصہ تھا۔ تین طرف سے اس میں چار دیواری تھی۔ 1528 میں تعمیر مسجد، اس وقت سے، 1947 آزادی ھند بعد پورے دوسال 1949 تک، بعد آزادی ھند، ملک بٹتے آزاد ملک پاکستان بنائے جاتے، مختلف ظہور پذیر ہوئے،ھندو مسلم فسادات پس منظر، اس نفرتی ماحول میں، پورے 421 سال تک باقاعدگی کے ساتھ نماز ادا کی جاتی رہی بابری مسجد کو، منافرتی ذہنیت رکھنے والے ایودھیہ نگری ضلع کلکٹر “کے کے نائر” نے، 22 دسمبر 1949 کو ھندو مسلم نفرتی ماحول میں، بابری مسجد پر ٹالا لگواتے ہوئےاسےمسلمانوں کے استعمال سے مانع رکھا تھا۔
1885 انگریزوں کے دور حکومت ميں ایودھیا کے ایک سادھو رگھوبر داس نے فیض آباد کی ضلع عدالت میں ایک درخواست داخل کی تھی جس میں انھوں نے بابری مسجد کے باہر ایک چبوترے پر، چھتری بنانے کی اجازت عدالت سے مانگی تھی جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔ اس وقت کسی بھی ھندو کی طرف سے بابری مسجد پر رام جنم استھان مندر توڑ کر مسجد بنائے جانے کا کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا تھا۔

بیسویں صدی کے اوائل میں ہندو مہا سبھا اور آر ایس جیسی ہندو تنظیمیں وجود میں آنے کے بعد، آزاد بھارت پر حکومت کرنے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہزاروں سالہ آسمانی سناتن دھرمی گنگا جمنی مختلف المذہبی اعلی اقدار، سیکیولر بھارت کی پرامن فضاء کو ھندو مسلم منافرتی ماحول میں بدلنے کی کوشش ہی میں،آزادی ھند بعد،گاہے بگاہے، ھندؤں کی طرف سے یہ کہا جانے لگا کہ یہ بابری مسجد اس مقام پر بنائی گئی ہے جہاں بھگوان رام کی پیدائش ہوئی تھی۔ جبکہ صرف رام نگری ایودھیہ ہی میں چھ مختلف مقامات پر، زمانےقبل سےرام جنم بھومی ہونے کا دعوٰی کرتے، پہلے سے رام جنم مندر موجود ہیں۔ بابری مسجد تعمیر کی گئی

زمین کے نیچے،ھندؤں کے بھگوان رام کے جاء پیدائش دعوؤں کے تاریخی شواہد یا ریفرنس نہیں ملتے ہیں۔ فقط ہندو فریق کہتے پائے جاتے ہیں کہ یہ مسجد رام مندر توڑ کر،اس کے مقام پر بنائی گئی ہے۔ 22 دسمبر1949 کی رات کے اندھیرے میں ایودھیا کے کچھ سادھوؤں نے، بابری مسجد کے درمیانی گنبد کے نیچے، منبر کے مقام پر رام للا کی ایک چھوٹی مورتی رکھ دی تھی اور اگلی صبح یہ افواہ پھیلائی تھی کہ بھگوان رام،بابری مسجد میں اپنی پیدائش کے مقام پر ’ظاہر‘ ہو گئے ہیں۔ چند سادھوؤں نے مسجد کے باہر بھجن کیرتن کرنا شروع کیا تھا۔ مسجد کے باہر تعینات پولیس اہلکار نے جو رپورٹ درج کی تھی اس میں مورتی رکھنے والے سادھوؤں کے نام بھی درج کرائے گئے تھے۔

مقامی کلکٹر “کے کے نائر” نے بابری مسجد پر جب تالہ لگوا،اسے مسلمانوں کے لئے نماز پڑھنے سے بند کردیا تھا تو اس وقت کے سیکیولر وزیر اعظم ہندستان جواہر لعل نہرو نے، اتر پردیش کے کانگریس کے وزیر اعلی جی بی پنت کو، مسجد سے مورتی ہٹانے کی ہدایت کی تھی۔ چونکہ اس وقت کے فیض آباد کے کانگریس کے رکن پارلیمان بابا راگھو داس نے بھی مسجد سے مورتی ہٹانے کی سخت مخالفت کی تھی اس لئے اتر پردیش کانگرئس وزیر اعلی جے پی پنت نے،نہرو کو جواب دیا تھا کہ اگر مورتی ہٹائی گئی تو ایودھیا میں فساد برپا ہو سکتا ہے۔
6 دسمبر 1992 شدت پسند ھندوؤں کی طرف سے بابری مسجدسازشتا” شہید کئے جانے کے بعد، جب معاملہ عدالت پہنچا تب 30 ستمبر 2010 آلہ باد، ہائی کورٹ اس مشہور فیصلے میں عدالت کے تین ججوں نے فیصلہ دیا کہ ایودھیا کی 2.77 ایکڑ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک تہائی رام للا یعنی شیر خوار رام کو دی جائے،

جس کی نمائندگی ہندو مہا سبھا کر رہی تھی، اس جگہ مندر تعمیر ہوگا۔ ایک تہائی زمین سنی وقف بورڈ کو دی جائے جہاں وہ اپنی مسجد بنائیں اور باقی حصہ ہندو مذہبی تنظیم نرموہی اکھاڑے کو دی جائے۔ تین ججوں نے اس پر متفقہ فیصلہ نہیں دیا تھا کہ یہ مسجد مندر کو منہدم کرکے بنائی گئی تھی۔ تاہم اس بات پر سبھی جج متفق تھے کہ اس جگہ پہلے ایک مندر یا مندر نما کوئی عمارت یہاں رہی ہوگی۔ انڈیا کے محکمہ آثار قدیمہ کے سروے کی کھدائی سے ملنے والے نمونوں سے، یہاں مندر کی موجودگی پر زور دیا گیا تھا۔
یہاں سب سے اہم بات 1528 سے 1949 تک 421 سال تک بابری مسجد والی جگہ پر مندر ہونے کا کوئی دعوہ نہیں تھا البتہ 1885 انگریزوں کے دور حکومت ميں ایودھیا کے ایک سادھو رگھوبر داس نے فیض آباد کی ضلع عدالت میں مسجد سے باہر کافی دور بنے چبوترے کو رام للا کی جائے پیدایش بتا،اس کے درشن کے لئے آنے والے ھندو شردھالوؤں کو، دھوپ بارش سے آمان کے لئے، اس کھلے چبوترے پر چھتری نما سایہ بنانے کی درخواست آلہ آباد ہائی کورٹ میں داخل کئے جانے کے باوجود، زمانے سے مسلمانوں کے استعمال والی بابری مسجد کے قریب عارضی چبوترے کو رام للا قرار دئیے،

اس پرمستقبل میں ھندو مسلم ممکنہ تنازع وقوع پذیر ہونے کے ڈر پیش نظر، اس وقت کے انگریز جج نے،رام للا کی جائے پیدائش مشہور کئے گئے، اس چبوترےپر بھی، دھوپ و بارش سے درشکوں کو آرام دینے، چھتری نما ڈھانچہ تعمیر ہی کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔جبکہ انگرئزوں کا وطیرہ ھندو مسلم منافرت پروان چڑھائے ان پر حکومت کرنا تھا۔وہ مسلم بادشاہت سے سازشتا” چھینے گئے مملکت ھند میں درپردہ، ھندو مسلم منافرت بڑھاتے پائے جاتے تھے، لیکن وہ فی زمانہ سنگھی ھندو حکمرانوں کی طرح، کھلم کھلا غیر قانونی اقدامات نہیں کرتے تھے۔
کلکٹر کےکےنائر سبکدوش ہونے کے بعد بی جے پی کی پیشرو جماعت جن سنگھ کے پہلے رکن پارلیمان ایودھیہ سے منتخب ہوئے

۔ 1950 میں گوپال ویشارد نے فیض آباد ضلع عدالت میں درخواست دائر کی کہ ہندوؤں کو بابری مسجد میں رکھی ہوئی رام کی مورتی کو پوجنے کا حق دیا جائے۔1950 میں ہی ایک دیگر سادھو پرم ہنس رام چندر داس نے بھی ایک پٹیشن کے ذریعے مسجد میں روزانہ پوجا کی اجازت مانگی۔1959 میں پہلی بار سادھوؤں کے ایک سکول ’نرموہی اکھاڑہ‘ نے پورے بابری مسجد کمپاؤنڈ پر دعوے کی پٹیشن داخل کی۔1961میں اترپردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ نے، بابری مسجد کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کی پٹیشن ڈالی۔
1986 میں کانگریس کی حکومت تھی اور راجیو گاندھی وزیر اعظم تھے، اس وقت فیض آباد کی ایک ذیلی عدالت نے مسجد کاتالہ ہندو عقیدت مندوں کی پوجا کے لئے کھولنے کا حکم دیا۔یہی وہ وقت تھا جب آر ایس ایس، وشوہندوپریشد اور بجرنگ دل جیسی جماعتوں نے، بی بی جے پی کی حمایت سے رام جنم بھومی کو، بابری مسجد سے آزاد کرانے کی ملک گیر مہم شروع کی۔ رفتہ رفتہ یہ مہم زور پکڑنے لگی

۔آزاد ہندوستان میں یہ اپنی نوعیت کی سب سے بڑی اورسب سے منظم تحریک تھی۔1989 میں خود بگھوان رام کے نام سے ملکیت کا ایک مقدمہ الہ آبادہائی کورٹ میں دائرکیاگیا۔25 ستمبر 1990 کو، بی جے پی کے سینئیر رہنما ایل کے اڈوانی نے، گجرات کے سومناتھ مندر سے ایودھیا تک، ایک رتھ یاترا کی مہم شروع کی۔ اس مہم میں لاکھوں ہندو شریک ہوئے۔
1990 میں زبردست سکیورٹی کو توڑتے ہوئے ہزاروں کارسیوک یعنی رضاکار اکتوبر میں پیدل ایودھیا پہنچنا شروع ہو گئے۔ ایک مرحلے پر ایسا لگا کہ یہ ہجوم بابری مسجد پر یلغار کر سکتا ہے۔ اس وقت ریاست میں ملائم سنگھ کی حکومت تھی۔ انھوں نے کارسیوکوں کو منتشر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کرنے کا حکم دیا جس میں کم ازکم آٹھ کارسیوک مارے گئے۔
دسمبر 1992 میں بی جے پی رہنما ایل کے اڈوانی، اٹل بہاری واجپئی اور ہندو تنظیموں کے اعلیٰ رہنماؤں نے، ایودھیا کی طرف حتمی مارچ کی کال دی۔ پورے ملک سے لاکھوں کارسیوک ایودھیا پہنچنا شروع ہو گئے۔ یہ کارسیوک بابری مسجد کے نزدیک ایک میدان میں جمع تھے۔

6 دسمبر 1992 کو صبح دس بجے کے قریب کارسیوکوں کے ایک ہجوم نے بابری مسجد پر حملہ کر دیا اور چند گھنٹوں میں بابری مسجد زمین بوس کردی گئی۔ اسی وقت وہاں ترپال اور ٹن سے گھیر کر ایک عارضی علامتی مندر بنا دیا گیا۔ اس وقت کی عدالت نے، کانگریسی نرسمہاراؤ حکومتی ایماء پر، عارضی بنائےگئے مندر کو اکھاڑ پھینکنے کے بجائے، جو جس حالت میں ہے، اسے اسی حالت برقرار رکھنے کا حکم دیا۔ اور اسی وقت بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہم مسلمانوں کو شانت کرنے کے لئے،مسلمانوں کو دوبارہ مسجد بنائے جانے کا اعلان کیا تھا
25 ستمبر 1990 کو، بی جے پی کے سینئیر رہنما ایل کےاڈوانی کے،گجرات سومناتھ مندر سے ایودھیا تک، رتھ یاترا مہم شروع کرتے اور سنگھی شدت یسندوں کی طرف سے، کاشی وشوناتھ مندر گیان واپی مسجد اور ماں شرنگر گوری مندر سمیت انیک مساجد کو مندروں میں تبدیل کئے جانے کی مانگ کے چلتے،

اس کانگرئسی وزیراعظم شری نرسمہا راؤ باوجود اپنے سنگھی ذہنیت کے، اس وقت پارلیمنٹ میں عبادت گاہ تحفظ خصوصی قانون پارلیمانی ایکٹ1991 پاس کیا تھا۔ گو یہ عبادت گاہ قانون، تھوڑا پیچیدہ ہے۔ اس ایکٹ کو عبادت گاہ (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ عبادت گاہوں کی حیثیت وہی رہے گی جو 15 اگست 1947 کو تھی۔ اس قانون کے مطابق 15 اگست 1947 سے پہلے موجود کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔

لیکن چونکہ ماقبل آزادی ھند انگرئز حکومت دوران ہی،ایودھیا کے ایک سادھو رگھوبر داس نے فیض آباد کی ضلع عدالت میں بابری مسجد کے باہر صحن میں بنے چبوترے کو بھگوان شری رام کی جائے پیدائش قرار دئیے،وہاں درشن کے لئے آنے والے شردھالوؤں کو بارش و دھوپ سے بچانے چھتری نما سایہ تعمیر کرنے درخواست کرتے ہوئے، اس احاطے میں رام جنم استھان کی مانگ شروع کردی تھی، اور بعد آزادی ھند 1949 رات کے اندھیرے میں بابری مسجد کے اندر
رام للا کو رکھتے ہوئے

رام جنم استھان کا تنازع شروع کیا جاچکا تھا اور یہ سب تنازعات دیش کی عدالت عالیہ میں التواء میں رکھے ہوئے تھے، اس لئے بابری مسجد اور رام جنم استھان قضیہ کو عبادت گاہ تحفظ خصوصی پارلیمانی ایکٹ 1991 سے الگ رکھا گیا تھا
عبادت گاہ تحفظ خصوصی پارلیمانی ایکٹ 1991 کی بعض دفعات
عبادت گاہ قانون کے سیکشن 3 میں کہا گیا ہے کہ مذہبی مقامات کو اسی طرح محفوظ رکھا جائے گا جیسے وہ 15 اگست 1947 کو تھے۔ ایکٹ کا سیکشن 3 کسی بھی مذہبی فرقے کی عبادت گاہ کی مکمل یا جزوی تبدیلی سے منع کرتا ہے۔ اس میں ایک اور خاص بات ہے۔ قانون میں لکھا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ موجودہ مذہبی مقام تاریخ میں کسی اور مذہبی مقام کو تباہ کر کے بنایا گیا تھا، تب بھی اس کی موجودہ شکل کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
سیکشن 4(1) اعلان کرتا ہے کہ عبادت گاہ کا مذہبی کردار 15 اگست 1947 کو ’ویسے ہی بنا رہے گا جیسا وہ وجود میں تھا۔ سیکشن 4(2) کہتا ہے کہ 15 اگست 1947 کو موجود کسی بھی عبادت گاہ کےمذہبی کردار میں تبدیلی کے سلسلے میں، کسی بھی عدالت میں زیر التواء کوئی مقدمہ یا قانونی کارروائی ختم ہوجائے گی اور کوئی نیا مقدمہ یا قانونی کارروائی شروع نہیں ہوگی۔اگر 15 اگست 1947 کی کٹ آف تاریخ (ایکٹ کے آغاز کے بعد) عبادت گاہ کی نوعیت بدل گئی ہے تو قانونی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے۔
دفعہ 5 میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون رام جنم بھومی بابری مسجد کیس اور اس کے سلسلے میں کسی بھی مقدمہ، اپیل یا کارروائی پر لاگو نہیں ہوگا
1992 نرسمہا راؤ کی کانگریس حکومت نے متنازع زمین کے اطراف کی 27 ایکڑ زمین ایکوائر کر لی اور اس کے اطراف میں خاردار باڑیں لگادی تھیں۔
30 ستمبر 2010 کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک کے مقابلے دو کی اکثریت سے منہدم بابری مسجد کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے مقدمے کے دو ہندو فریقوں اور ایک سنی وقف بورڈ کو برابربرابر دینے کا حکم دیا۔
9 نومبر سنہ 2019 کو سپریم کورٹ نے متّفقہ طورپر ہندو فریق کے حق میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت عظمی نے مرکزی حکومت کو رام مندرکے تعمیر کے لیے ایک ٹرسٹ قائم کرنے کا حکم دیا۔ اس نے حکومت کو یہ ہدایت بھی کی کہ سنی وقف بورڈ کو ایودھیا کے اندر کسی ’مناسب‘ مقام پر مسجد کے لیے پانچ ایکڑ اراضی مہیا کرائے۔

5 اگست 2020 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندرکا سنگ بنیاد رکھا۔
22 جنوری 2024 کو وزیر اعظم نریندر مودی ایودھیا میں ایک بڑی تقریب میں اس کا باضاطہ افتتاح کر رہے ہیں۔
9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کے تمام تر ملکیتی ڈاکیومنٹ و قبضہ والی 500 سالہ بابری مسجد آراضی کو قاتل بابری مسجد ھندو فریق ہی کے حوالے کئے جاتے سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے کو اس دئش کی سب سے بڑی اقلیت ہم 300ملین مسلمانوں نے،نہ صرف دل سے قبول کیا تھا بلکہ ھندو شدت پسندوں کی طرف سے،کاشی وشوناتھ مندرگیان واپی مسجد، اور ماں شرنگر گوری مندر سمیت انیک مساجد کو مندروں میں تبدیل کئے جانے کی مانگ اور عبادت گاہ تحفظ خصوصی پارلیمانی ایکٹ 1991 کے پیش نظر، اس عالم کی سب سے بڑی جمہوریت، مختلف المذہبی گنگا جمنی سیکیولر اثاث ملک بھارت میں اپنے صبر و ضبط سے ایک مثال جو قائم کی تھی

،اس دئش پر حکومت کررہے شدت پسند سنگھی ٹولے نے اسے ہم 300 ملین مسلمانوں کی کمزوری سمجھتے ہوئے، بابری مسجد کئے جاتے وقت متنازع فیہ مقامات مقدسہ کے علاوہ اب دیش کی ہر بڑی اور تاریخی مساجد کے نیچے پرانے مندر کے آثار ہونے کا شوشا چھوڑ ہزاروں سالہ گنگا جمنی بین المذہبی بھارت کے امن و سکون کو تاراج کرنے کے درپے نظر آتے پس منظر،ہم مسلمانوں کو بھی،اپنی مدافعت ہی میں، اپنے بچاؤکے لئے مد مقابل پر حملہ آوری پہل کئے

جیسا، ملکی و عالمی وکلا کی ٹیم سے مشورہ کئے اپنے تمام تر ملکیتی ڈاکیومنٹ والی شہید کئے رام مندر تعمیر کی گئی آراضی واپسی کا مقدمہ از سر نؤدوبارہ لڑنا چاپئیے۔ تاکہ کم از کم ،عبادت گاہ تحفظ خصوصی پارلیمانی ایکٹ 1991 کے تحت بعد آزادی ھند ہم مسلمانوں کے قبضہ والی تمام تر عبادت گاہوں پر، صرف اور صرف سیاسی اقتدار کے بھوکے ان سنگھی نفرتی درندوں کی نفرتی مانگوں کا قلع قمع کیا جاسکے۔وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں