ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ تو، استاد بچوں کے دوسرے والدین 16

اپنے آپ کو دریافت کریں

اپنے آپ کو دریافت کریں

نقاش نائطی
نائب ایڈیٹر اسٹار نیوز ٹیلوزن دہلی
۔ +966562677707

ہمارے الجبیل کے پرانے ایک دوست یونس خان صاحب،جو اپنےطور ایک کامیاب تاجر اور صنعت کار بھی ہیں،ایک ادبی مجلس میں،چجس گرمجوشی سے ملاقات کئے، ہمیں یکم دسمبر کوک ذون ھال انکے اہتمام کردہ ایک پروگرام میں آنے کی دعوت دی تھی۔ ہم انکار نہ کر پائے تھے۔چونکہ وقت پروگرام عشاء کی آذان سے ربع گھنٹہ پہلے تھا اور چونکہ عموماً ہم مشرقی احباب کے ہر پروگرام نصف تا گھنٹہ تاخیر ہی سے شروع ہوتے ہیں، ہم بعد نمازعشاء پہنچے تو، الجبیل مصروف تجارت اکثر ھندو مسلم ھندی نیپالی پاکستانی تجار سے کچا کھچ بھرے مجمع کے ساتھ، سعادت خان کا لیکچر شروع ہوچکا تھا۔

سعادت خان صاحب کسی کالج پروفیسر کی طرح کلاس روم میں دوستانہ ماحول لیکچر دئیے جیسا سامعین سے محو گفتگو تھے۔ چونکہ ہم تاخیر سے پہنچے تھے، ہمیں انکے مقصد گفتگو کو سمجھتے سمجھتے، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ چار ساڑھے چار دہے قبل والے، کالج کے کسی کھڑوس پروفیسر کے کلاس میں، ہم پہنچے ہیں۔ جب انکے پندو نصائح کانوں سے، اندر جاتے، دل و دماغ کو چھونے لگے تو، ہمیں احساس ہوا

کہ ہمارے تخیلات، انسے کتنے ملتے جلتے ہیں۔ مختلف اخبار و رسائل و نیوزپورٹل پر طبع و نشر ہونے والی ہماری آپنی تحریروں سے، ہم جیسے مختلف موضوعات پر مفصل تحریر ہو یا کسی بھی حالات حاضرہ ویڈیو کلپ یا واقعاتی خبر پر تبصراتی تحریروں سے، ہر موضوع کو ، کچھ اس اختتام تک بات لیجاتے ہوئے، اپنے قارئین کو، اپنے مالک حقیقی یا رزاق دوجہاں سے جوڑنے کی جو کوشش ہم کرتے ہیں،

کچھ ویسا ہی سعادت خان صاحب، مختلف المذہبی، عموماً اعلی تعلیم یافتہ،اپنی اپنی حد تک کامیاب تاجروں کے ایک بڑے مجمع کو، عام انسانوں کے قلب و ذہن میں اترنے والی،اپنی صاف و شستہ باتوں سے، ماؤف و مبحوس، مطمئن و مسرور رکھے ہوئے ہیں۔ سعادت خان صاحب تین چوتھائی صد اپنی زندگی کے حصے اختتام کے قریب رہتے ہوئے بھی، صرف اسٹیج ڈایس پر کھڑے کھڑے لکچر جھاڑنے کے بجائے ، ہاتھ میں مائک لئے، ہورے ہال میں گھوم گھوم کر، عمومی طور، ہر ٹیبل پر تشریف رکھے تجار قوم وملت سے، بالکل ایسے ہی ہم کلام یوریے تھے، جیسے ایک شفیق و مہربان پروفیسر، اپنے کلاس طلبہ سے محو گفتگو،

ہر کسی کے پاس جاکر، ان سے مخاطب ہوئے، انہیں پوری طرح اپنے اعتماد میں لئے، اپنی بات انکے قلب و اذہان میں ودیعت کررہا ہو۔ اس کبار سنی میں، جس چستی و یکجہتی کے ساتھ، وسط پروگرام پندرہ منٹ نمازعشاء و چاء بریک کے، تقریباً تین گھنٹہ کا لکچر دینا نہ صرف تعجب خیز امر تھا بالکہ اس بات کو اظہر من الشمس کی طرح واضح کرنے کے لئے بھی کافی تھا کہ اللہ رب العزت جس کسی سے چاہتے ہیں کام لے ہی لیتے ہیں۔

اس پروگرام میں میزبان جناب یونس صاحب نے الجبیل سابقہ 35 سال سے مصروف تجارت، مقامی بھٹکلی تاجر محمد فاروق شاہ بندری پٹیل صاحب کی تجارتی سرگرمیوں کا تعارف کراتے ہوئے، اور انکے تحریری آگہی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے، انہیں ڈائس پر بلا کر، الجبیل ہی کے ایک دوسرے معزز تاجر جناب وحید لطیف صاحب کے ہاتھوں، پھول گلدستہ پیش کرتے ہوئے،بہترین انداز عزت افزائی کی یہ انکا بڑپن ہی تھا، وہیں پر دیگر کئی ایک ہم وطن تاجر بھائیوں کی بھی عزت افزائی کی گئی۔اور پرتکلف عشائیہ کے ساتھ شب ساڑھے دس بجے جلسہ بخیر خوبی برخاست ہوا۔

“پیس فار یو انٹرنیشنل فاؤنڈیشن” کے بانی ڈاکٹر سعادت خان بنگلور1950 بنگلور میں پیدا ہونے، بنگلور میں سائنس اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی، اور پھر بالکل مختلف سمت و جہت میں خدمات انجام دیں، پہلے تجارت کی دنیا میں، پھر صحافت، اور پھر لوگوں کی رہنمائی کرنے ہی کو اپنی زندگی مقصد بنالیا
“اپنے آپ کو دریافت کریں” ورکشاپ کے ساتھ سعادت خان کا سفر کچھ اسی طرح شروع ہوا جسے خود سعادت خان نے، اپنے لئے وضع کیا تھا
“خود کو دریافت کریں” یہ خود شناسی کے عنوان سےچلنے والا،اعلیٰ تفکراتی ورکشاپس کا ایک سلسلہ ہے۔ یہ بااختیار بنانے والی ورکشاپس، نہ صرف معلوماتی ہے، بلکہ فطرت میں تبدیلی لانے والی بھی ہے، جو شرکاء کی رہنمائی اور خود ساختہ حقیقت سے حتمی حقیقت کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ شرکاء کو اپنے خول سے باہر آنے اور حتمی حقیقت کا ادراک کرنے کی صلاحیت کے متحمل ہوتے ہیں،

جیسے کوئین کے مینڈک کو کھلی فضاء میں چھوڑا جارہا ہے۔اس طرح شعور، سکون، امن اور سکون کے ایک نئے دائرے کے دروازے کھولتے ہیں۔ خود کو دریافت کیئے جانے والا ورکشاپ شرکاء کو اندرونی سکون فراہم کرتا ہے۔ یہ انہیں غصہ، بغض، حسد، مایوسی اور ڈپریشن سے آزاد کرنے میں مدد کرتا ہے، ان کےاعتماد کوبڑھاتا ہے، کامیاب زندگی کی طرف رہنمائی کرتا ہے، خاندان کے اندر اور ذاتی تعلقات کو درست کرتا ہے، شرکاء کی زندگیوں کو خدا کے شعور کے محور پر قائم کرنے میں مدد کرتا ہے،

زندگی کے مقصد کے بارے میں ان کی سمجھ کو تیز کرتا ہے، ماضی کے نفسیاتی بوجھ کو دور کرتا ہے، اطمینان پیدا کرتا ہے اور اہداف کے تعین اور ناکامیوں پر قابو پانے میں مدد کرتا ہے۔ یہ مثبت توانائی کو جنم دیتا ہے، مایوسی سے دوچار زندگیوں میں امید کا پیغام دیتا ہے، نئے منظر کھولتا ہے، اور تعمیری مقاصد کے لیے اندرونی صلاحیت کو بروئے کار لاتا ہے۔ یہ لوگوں اور خالق کائینات کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔
سعادت اللہ خان “پیس فار یو انٹرنیشنل فاؤنڈیشن” کے پیچھے محرک قوت ہیں، ایک غیر منافع بخش تعلیمی اور آگاہی کی تنظیم جو خود شناسی ورکشاپس کے ذریعے لوگوں کو بااختیار بنانے اور ’اپنے آپ کو دریافت کرنے میں ممد کرتے ہیں،ہر کسی کو خود کو جاننے پہچاننے کی سچی راہ پر گامزن کرتے ہیں
سعادت خان کے ذریعہ 2002 میں قائم کی گئی، فاؤنڈیشن اس بات کی وکالت کرتی ہے کہ اسلام ایک طرز زندگی ہے جو امن کی طرف لے جاتا ہے، اور امن کا سرچشمہ خدا ہے اور یہ کہ صرف حقیقی حقائق سے تعلق کے ذریعے ہی کوئی شخص امن، محبت، خوشی اور اطمینان حاصل کرسکتاہے۔سعادت خان ہمہ وقت دنیا کے طول و عرض کا سفر کرتے ہوئے لوگوں کو اندرونی کشمکش کو یکسر ختم کرنے اور اندرونی امن حاصل کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ جب کسی کے اندر اندرونی سکون نہ ہو تو وہ دوسروں کو سکون نہیں دے سکتاہے
سعادت خان اپنے سادہ سادہ پریکٹیکل جملوں سے سامعین کے دلوں کے اندر تک دستک دینے کامیاب رہتے ہیں اور اپنی ورکشاپس کے ذریعے ان میں گہرے اطمینان کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ وہ انسانیت میں فرق کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور پہلے ہی ہزاروں لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرچکے ہیں۔ مختلف قومیتوں اور پس منظر کے لوگ، بشمول مختلف عقائد کے لوگ، اس کی ورکشاپس میں شرکت کرتے ہیں اور اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس کی زندگی لوگوں کو اندرونی سکون کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے وقف ہے، جو سچائی کو جاننے میں حاصل کی جا سکتی ہے۔
ڈی وائ ائس (DYS) ورکشاپ شروع کرنے پر آخر کس نکتہ نے انہیں ابھارا؟
تقریباً تین دہائیوں سے روحانی دائرے میں رہنے اور جنوری 1987 سے ایک انگریزی ماہانہ میگزین ’اسلامک وائس‘ کے پیچھے محرک ہونے کی وجہ سے سعادت خان کو مسلم دنیا میں ہونے والے واقعات کا ایک پہلو سامنے آچکا تھا۔ انہوں نے یہ محسوس کیا کہ زیادہ تر مسلمانوں نے اسلام کے فقہی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی ہے، جو کہ فطرت میں ثانوی مقام رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ باطنی یا اندرونی تطہیر پر مرکوز نہیں ہیں۔

انہوں نے محسوس کیا کہ اس کا پوری دنیا میں مسلم کمیونٹی کے سماجی تانے بانے پر منفی اثر پڑا ہے۔ طلاق، نفرت، جھگڑے، قانونی چارہ جوئی، بداعتمادی اور بے ایمانی نے مسلم معاشرے کے سماجی اور ثقافتی منظر نامے پر غلبہ حاصل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسی لئے انہوں نے اسے اپنی پیس فار یو انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ’ڈسکور یور سیلف‘ ورکشاپس کا ایک سلسلہ شروع کرنے کی ترغیب دی یے
فاؤنڈیشن اور اپنی اعلیٰ ترین ورکشاپس کے ذریعے، سعادت خان انسانیت کو خدا سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، جو حتمی حقیقت ہے۔ وہ لوگوں کو مضبوطی سے صراط مستقیم سیدھے راستے پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، اندرونی ادراک اور خود حقیقت پسندی کی طاقت کو بروئے کار لاتے ہیں۔ ان کا پختہ یقین ہے کہ وقت کا تقاضا ہے کہ تمام انسانوں کو خدا کے راستے پر لایا جائے۔ اس نے قرآن و سنت پر مبنی منفرد اپنے آپ کو دریافت کیجئے کورس ڈیزائن کرنے میں کئی سال صرف کئے ہیں۔
جولائی 2002 کے بعد سے، انہوں نے ہندوستان اور بیرون ملک کے بڑے شہروں میں 400 سے زیادہ، تین روزہ ورکشاپس کا انعقاد کرتے ہوئے، ہزاروں شرکاء کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی لائی ہے۔ دبئی، ابوظہبی، مسقط، قطر، کویت، بحرین، سعودی عرب، سری لنکا، جنوبی افریقہ، بوٹسوانا، زمبابوے، کینیا، لیسوتھو، برطانیہ، امریکہ، ناروے، سنگاپور اور کراچی میں بھی کامیاب ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا ہے

۔انکا کانٹیکٹ نمبر 00919845894900
ہم مختلف کالج مینجمنٹ سے امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے سینئر طلبہ کو،عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے، اپنے کالج میں ان کا ورکشاب رکھتے ہوئے، اپنے طلبہ کے قلب و اذہان کو، اپنے خالق کائیبات سے جوڑنے والوں میں سے بنائیں۔وما التوفیق الا باللہ
الجبیل کوک زون ہوٹل منعقدہ پروگرام کی کچھ تصاویر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں