20

سوال سب کی بقاء کا ہے !

سوال سب کی بقاء کا ہے !

ملک ایک کے بعد ایک بحران کا شکار ہے اور اہل سیاست مل بیٹھ کرکوئی حل تلاش کر نے کیلئے تیار ہیں نہ ہی ایک دوسرے کو قبول کررہے ہیں، ایک دوسرے کو ہی مود الزام ٹہرایا جارہا ہے ، ایک دوسرے پر ہی دبائو بڑ ھایا جارہا ہے ، اس اندرونی دبائو کے باعث جہاں بیرونی دبا ئو آنے لگا ہے ، وہیںملک پا بندیوں کی زد میں بھی آنے لگا ہے ،اس کا ذمہ دار کوئی ایک نہیں ،سارے ہی ذمہ دار ہیں ، ہر ایک کونہ صرف پنی ذمہ داری قبول کر نا ہے ، بلکہ اپنی کو تائی کاازالہ بھی کر نا ہے ، اگر ایسا کچھ کر پائیں گے

تو ہی در پیش بحرانوں سے نکل کر آگے بڑھ پائیں گے ۔اس اتحادی حکومت کو آئے دس ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکاہے،اس عرصے میں ملک ایک طرف مسلسل سیاسی کھینچاتانی کا شکار ہے تو دوسری جانب کمزور معیشت دیوالیہ پن کے کنارے کھڑی ہے ، اس لیے ہی بار بار انتہائی سخت شرائط پر غیرملکی قرضوں کا سہارا لینا پڑرہا ہے اور عوام کو ہی قر بانی کا بکرا بنانا پڑ رہا ہے ، اس کے باوجود حالات سنبھل نہیں پارہے ہیں ، لیکن حکو مت دعوئیدار ہے کہ حالات بہتری کی جا نب گامز ن ہو رہے ہیں ، اگر ایسا ہی ہے تو اس کے اثرات عام عوام تک پہنچنے چاہئے ، مگرعوام تک کوئی اثرات پہنچ رہے ہیں

نہ ہی عوام کی زندگی میں کو ئی تبدیلی آرہی ہے ، حکو مت جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں لائے گی ، ملک میں معاشی استحکام آئے گا نہ ہی ملک آگے بڑھ پائے گا۔اس کیلئے حکو مت کو اپوزیشن کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا ہو گا اور مذاکرات کیلئے ایک میز پر لا نا ہو گا ،اس حوالے سے بانی پی ٹی آئی نے جہاں سیاسی مفاہمت کیلئے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے وہیںحکو مت نے بھی اپنی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کر دیا ہے

، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے حکومت اور اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹیوں کو ملاقات کی دعوت بھی دے ڈالی ہے، اس مذاکراتی کمیٹی ارکان کی ملاقات ہو نے جا رہی ہے ، لیکن اب دیکھنا ہے کہ دنوں جا نب سے کتنا سنجید گی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ،اگر حکو مت مذاکرات کے ساتھ انتقامانہ رویہ جاری رکھے گی ،نومئی پر ہی اپنی سیاست چمکا نے کی کوشش کرتی رہے گی اور تحریک انصاف احتجاج کی کال دیتی رہے گی

تو یہ مذاکرات کی بیل کیسے منڈھیر چڑھ پائے گی ۔اس ملک میں نو مئی کو جو کچھ بھی ہوا ، نہیں ہو نا چاہئے تھا ، اس میں کوئی ایک نہیں ، سارے ہی قصور وار ہیں ، لیکن سزا اور جزا کے شکنجے میں صرف تحریک انصاف ہی آرہی ہے ، تحر یک نصاف کو پوری سزا دی جارہی ہے ، اس میں دوسرے شر یک کار نہ صرف بچ رہے ہیں ،بلکہ اس پر ہی اپنی سیاست چمکارہے ہیں اور اپنے گلے میں ہار ڈال کرجشن منارہے ہیں ،

لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ جو کچھ اپنے مخالف کیلئے کھودا جارہا ہے ، اس گھڑے میں خود بھی گریںگے ،اگر آج تحریک انصاف کی باری ہے تو کل ان کی باری بھی آنے والی ہے اور انہیں وہی کچھ کا ٹنا پڑے گا ، جوکہ آج بو رہے ہیں، اگر اس مقافات عمل سے بچنا ہے تو پھر ایک دوسرے کو راستہ دینا ہی پڑے گا ، ایک دوسرے کیلئے راستہ نکا لنا ہی پڑے گا ، ایک دوسرے کو مود الزام ٹہرا کر اور ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر کبھی آگے بڑھ پا ئیں گے نہ ہی کوئی مذکرات کا میاب بنایا پا ئیں گے ۔
ایک ایسے وقت میں،جبکہ ملک عزیز کو معاشی عدم استحکام اور دہشت گردی جیسے خطرات کا سامنا ہے،یہ ضرورت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مزید بڑھتی ہی جا رہی ہے کہ سیاسی فریقین سمیت تمام اربابِ اختیار مل بیٹھ کر ملک کے وسیع تر مفادات کا سوچیں اور ایسے میثاق پر اتفاقِ رائے پیدا کریں کہ جس سے ملک کے سیاسی،معاشی،عدالتی اور سماجی نظام کی اصلاح و ترقی کی راہ ہموار ہو سکے ، کیو نکہ اس وقت سوال سب ہی کی بقا ء کا ہے ، اگر آج بھی ہم آنا پر ستی میں ہی پڑے رہے اور ایک دوسرے کو ہی گرانے اور دیوار سے لگانے میں لگے رہے تو اس کے نتائج بہت ہی برے نکلیں گے ، اس کا بوجھ کوئی اُٹھا پائے گا نہ ہی کبھی عوام کے غضب سے بچ کر کہیں نکل پا ئے گا !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں