23

پا کستان میں دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں !

پا کستان میں دہشت گردی کی کوئی جگہ نہیں !

امریکہ اور اس کے اتحادی تو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے افغانستان سے نکل گئے، مگر ہمیں مستقل طور پر دہشتگردی کی آگ میں جھونک گئے ہیں،اس کے نتیجے میں ہماری دھرتی پر امن کا قیام ایک سراب بنا ہوا ہے اور ہمارے ازلی دشمن بھارت کو ہماری سلامتی کو کمزور کرنے کے مقاصدکی تکمیل کا نادر موقع ملا ہوا ہے ،اس وقت خیبر پختون خوا اور بلو چستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے،یہ سب اسی سلسلے کی کڑی ہے اور اس کے پیچھے اندرونی اور بیرونی ملک مخالف قوتیں سر گرداں ہیں

،تاہم آرمی چیف نے ایک بار پھر اپنا عزم دہرایاہے کہ ملک کا امن و امان خراب کرنے والوں کو فیصلہ کن اور بھرپور جواب دیا جائے گا،دشمن خوف پھیلانے کی کوشش کرے گا،مگر ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، اس ملک میں دہشت گرد اور دہشت گردی کیلئے کوئی جگہ نہیں،یہ جنگ جاری رہے گی اور ہم اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
اگر دیکھا جائے توملک عزیز میں پچھلے کچھ برس سے سکیورٹی خطرات بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں،اس حوالے سے 2024ء سب سے خطرناک سال رہاہے، اس سال 754 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 1336 افراد نے دہشت گردی کے واقعات میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جبکہ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 896 دہشت گردہلاک ہوئے،تاہم سالِ نو کے آغاز کے ساتھ ہی سکیورٹی فورسز کے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز میں تیزی آئی ہے اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں فتنہ خوارج کے خلاف متعدد کارروائیاں کی گئیں

اورپہلے دو ہفتوں میں ہی 70 سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، دہشتگردوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 130 آپریشن کیے جا رہے ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ دفاعی ادارے توامن کیلئے پُرعزم ہیں، لیکن اہل اقتدار ماسوائے اظہار مذمت اور اظہار تعزیت کے کچھ بھی نہیں کررہے ہیں،اس لیے ہی عسکری ذرائع متعدد بار یہ باور کرا چکے ہیں کہ گورننس کی خامیوں کو فوجی جوان اپنے خون کے نذرانے سے پورا کر رہے ہیں، اگر گورننس کی خامیوں پر قابو پا لیا جائے‘ پولیس‘ داخلی سکیورٹی اداروں اور مقامی انتظامیہ کو مزید فعال بنایا جائے تو نہ صرف دفاعِ وطن کی ذمہ داریوں کو بانٹا جا سکتا ہے

بلکہ امن و امان کی صورتحال بھی بہت بہتر بنائی جا سکتی ہے، اس حوالے سے نیشنل ایکشن پلان ایک جامع اور ہمہ گیر لائحہ عمل فراہم کرتا ہے ،اس میں حکومت‘ انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کی ذمہ داریوں کو واضح کیا گیا ہے،لیکن حکومت اپنی ذمہ داریاں ادا کر نے کے بجائے انتقامی سیاست کی راہ پر گا مزن ہے اور اپنا سارا وقت اپوزیشن کے خلاف اقدامات کر نے میں ہی صرف کررہی ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ملک کی سلامتی اور خوشحالی کو ناقابلِ تسخیر بنانے کیلئے قومی یکجہتی ناگزیر ہے

اور یہ کام سیاسی مفاہمت کے بغیر ممکن نہیں ہے، اگر اہل سیاست آپس میں ہی دست گر یباں رہیں گے ،ملک میں استحکام لانے کے بجائے سیاسی انتشار پھلاتے رہیں گے تو کیسے معاشی استحکام آئے گا اور کیسے دہشت گردی پر قابو پایا جاسکے گا ،ملک میں قیام امن اور استحکام لانا ہے تو ہر ایک کو اپنا اپنا کرادار ادا کر نا ہو گا ،اگر سیاستدان اپنی ذمہ داریاں خود نبھانے کے قابل ہوں گے تو ہی دفاعی ادارے زیادہ انہماک سے سرحدی نگرانی کی ذمہ داری ادا کر سکیں گے، اس وقت دفاعی ادارے ہی اندرونی اور بیرونی سر حدوں پر کار فر ماہیں اور اہل اقتدار اپنے اقتدار کے ہی مزے لوٹ رہے ہیں اور دفاعی اداروں کی ساری کار گزاری کا کریڈیٹ لینے کی کوشش کررہے ہیں،اس طرح زیادہ دیر تک نہیں چلے گا

، حکو مت کو بھی اپنی گورنس کو بہتر بنانا ہو گا اور خود بھی کچھ کر کے دیکھانا ہو گاتو ہی دہشت گردی پر قابو پایا جاسکے گا اور ملک میں امن لایا جاسکے گا۔اس وقت دہشتگردی کا کم و بیش پوری دنیا کو ہی سامنا ہے، مگر اس کے خلاف سب سے بڑی جنگ پاکستان تن تنہا لڑ رہا ہے ،تاہم عساکر پاکستان کے جوانوں کی قربانیاں رنگ لا رہی ہیں اور دشمنوں کے عزائم خاک میں ملتے نظر آ رہے ہیں، اس جنگ میں پوری قوم اپنے جانبازوں کے ساتھ کھڑی ہے اور یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان دشمن اندرونی اور بیرونی قوتوں کو ماضی کی طرح، اس مرتبہ بھی بری طرح شکست ہو گی، لیکن ضرورت اس بات کی ہے

کہ قوم میں نفاق اور انتشار پھیلانے والی مٹھی بھر قوتوں پر کڑی نظر رکھی جائے اور انہیں پنپنے نہ دیا جائے،ان کے خلاف بھی متحد ہوا جائے ،ہم جب تک مل کر اپنے اندر کی سازشوں کا سد باب نہیں کر یں گے ، بیرونی سازشوں کا سد باب کیسے کر پائیں گے ،؟ملک سے دہشت گر د ی کے سد باب کیلئے دہشت گر دو ں کے سہو لت کاروں کا سد باب کر نا ہو گا ،اس میں اہل سیاست اور عوام کو دفاعی اداروں کا ساتھ دینا ہو گا تو ہی اس ملک سے دہشت گردی اور دہشت گروں کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں